کرکٹ ہوسکتی ہے تو الیکشن کیوں نہیں

انتخابات از خود نوٹس کیس کی سماعت، آج صبح سماعت شروع کرکے آج ہی نمٹانے کی کوشش کرینگے، چیف جسٹس

پورے پاکستان میں کرکٹ ہورہی ہے لیکن انتخابات نہیں ہوسکتے،کیسے ہوسکتا ہے اس بنیاد پر الیکشن نہ ہوں کہ پیسے نہیں سپریم کورٹ

کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ سے 4 جج الگ ،باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، جسٹس عمر عطا بندیال

اسلام آباد)نیوز ڈیسک) انتخابات از خود نوٹس کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 9 رکنی بینچ سے 4 جج الگ ہوگئے۔سپریم کورٹ نے انتخابات ازخود کیس 23 فروری کی سماعت کا حکم نامہ جاری کر دیا۔فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس اطہر من اللہ اور جمال خان مندوخیل کا اختلافی نوٹ شامل ہے۔جسٹس یحیی آفریدی نے اختلافی نوٹ میں کہا کہ عام انتخابات کا معاملہ پشاور اور لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ،جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل باقی 5 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت شروع کی، تو چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے بتایا کہ 4 معزز ممبرز جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظاہر علی نقوی، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس یحیی آفریدی نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا ہے، اور اب عدالت کا باقی بینچ مقدمہ سنتا رہے گا، اطہر من اللہ اور یحیی آفریدی نے کیس کے حوالے سے اپنا ذہن واضح کر دیا تھا، انہوں نے خود کو بنچ سے الگ کیا۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ ساررے پاکستان میں کرکٹ ہورہی ہے لیکن انتخابات نہیں ہوسکتے، کیسے ہوسکتا ہے کہ اس بنیاد پر انتخابات نہ ہوں کہ پیسے ہی نہیں ہیںچیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آئین کی تشریح کیلئے عدالت سماعت جاری رکھے گی، آئین کیا کہتا ہے اس کا دارومدار تشریح پر ہے، کل ساڑھے 9 بجے سماعت شروع کرکے کل ہی ختم کرنے کی کوشش کریں گے، جب تک حکمنامہ ویب سائٹ پر نہ آجائے جاری نہیں کرسکتے، جسٹس جمال مندوخیل کا نوٹ حکمنامہ سے پہلے ہی سوشل میڈیا پر آگیا، مستقبل میں احتیاط کریں گے کہ ایسا واقعہ نہ ہو، چیف جسٹس نے کہا کہ پی ٹی آئی وکیل علی ظفر دلائل کا آغاز کرتے ہوئے آگاہ کریں عدالت یہ کیس سنے یا نہیں، آگاہ کیا جائے عدالت یہ مقدمہ سن سکتی ہے یا نہیں، کل ہر صورت مقدمہ کو مکمل کرنا ہے۔وکیل علی ظفر نے بتایا کہ گورنر پنجاب نے کہا میں نے اسمبلی توڑنے کی سمری دستخط نہیں کی، دستخط نہ کرنے کی وجہ سے الیکشن کی تاریخ نہیں دے سکتا، گورنر نے اپنے جواب میں الیکشن کمشنر کوتاریخ دینے کا کہہ دیا، تاریخ کی نہ الیکشن کمیشن ذمہ داری لے رہا ہے نہ گورنر۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے پوچھا کہ کیا الیکشن میں 90 دن سے تاخیر ہو سکتی ہے۔وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن میں ایک گھنٹے کی بھی تاخیر نہیں ہو سکتی، تاریخ کی نہ الیکشن کمیشن زمہ داری لے رہا ہے نہ گورنر ، صدر مملکت نے معاملے پر دو خطوط لکھے۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ صدر مملکت کا خط ہائیکورٹ حکم کے متضاد ہے۔چیف جسٹس نے گورنر خیبرپختونخوا کے سیکرٹری کو جواب جمع کرانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ سیدھا سادھا کیس ہے 18 جنوری سے گورنر تاریخ دینے میں ناکام ہے۔۔چیف جسٹس نے کہا کہ 218(3)فری فیئر شفاف انتخابات کا کہتا ہے، الیکشن کمیشن کو شفاف الیکشن کروانے ہیں، کیا گورنر کی مشاورت کی ضرورت ہے یا نہیں، الیکشن کمیشن کا کام انتخابات کرانا ہے، سیکشن 57 کے تحت تاریخ دینے کیلئے الیکشن کمیشن کا کردار مشاورت کا ہے۔علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کمیشن بے بسی ظاہر کرے تو عدالت کو ایکشن لینا چاہیے۔جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ الیکشن کی تاریخ دینا ذمہ داری کس کی ہے؟۔ علی ظفر نے جواب دیا کہ الیکشن کی تاریخ کے تعین کا سوال ہی عدالت کے سامنے ہے، پوری قوم کی نظریں عدلیہ پر ہیں قوم آپکی شکرگزار ہوگی۔الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ 2018 کے انتخابات کی تاریخ صدر مملکت نے دی تھی۔علی ظفر نے کہا کہ اسمبلی تحلیل کا نوٹیفکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا، اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے گورنر کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کی تاریخ اور نگران حکومت کیلئے گورنر کو کسی سمری کی ضرورت نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمان نے الیکشن ایکٹ میں واضح لکھا ہے کہ صدر بھی تاریخ دے سکتے ہیں۔بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ گورنر اسمبلی تحلیل کرتا ہے تو تاریخ بھی گورنر دے گا، گورنر تاریخ نہ دے تو صدر مملکت تاریخ دے گا۔جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پورے پاکستان میں کرکٹ ہورہی ہے لیکن انتخابات نہیں ہوسکتے، کیسے ہوسکتا ہے کہ اس بنیاد پر انتخابات نہ ہوں کہ پیسے ہی نہیں ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سمری آنے پر اسمبلی تحلیل کا حکم جاری کرنا گورنر کی ذمہ داری ہے، گورنر اپنے حکم میں انتخابات کی تاریخ بھی دے گا۔جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو ہر وقت انتخابات کیلئے تیار رہنا چاہیے، کوئی بھی اسمبلی کسی بھی وقت تحلیل ہوسکتی ہے۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ عدالت آرٹیکل 254 کو بھی مدنظر رکھے، صدر کی جانب سے دی گئی تاریخ پر الیکشن ممکن نہیں، کسی صورت بھی 25 اپریل سے پہلے انتخابات ممکن نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ اگر گورنر نے تاریخ دینی ہے تو وہ کسی سے مشورہ کریگا، گورنر الیکشن تاریخ کیلئے الیکشن کمیشن سے مشورہ کریگا، 90 دن کب ختم ہورہے ہیں۔وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیا کہ 13 اپریل کو 90 دن ختم ہورہے ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن 90 دن سے پہلے کا شیڈول بھی دے سکتا ہے۔ عدالت نے سماعت کل تک ملتوی کردی۔ کل صدر مملکت کی جانب سے سلمان اکرم راجہ پیش ہوں گے۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*