کراچی: بلڈرز و ڈیولپرز کی جانب سے سریے کی خریداری روکنے سے 80 فیصد تعمیراتی منصوبوں پر کام رک گیا۔
ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز کی جانب سے سریا نہ خریدنے کی مہم گذشتہ دو روز سے جاری ہے، شعبہ تعمیرات کے 80 فیصد منصوبوں پر کام روک دیا گیا ہے جس سے بڑے پیمانے پر بے روزگاری کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔
آباد کے سینئر وائس چئیرمین ندیم جیوا نے ایکسپریس کو بتایا کہ آباد کے ممبر بلڈر و ڈیولپرز کی سریے کی عدم خریداری مہم پر 100 فیصد عمل درآمد جاری ہے، کیونکہ جنوری 2023 سے اب تک فی ٹن سریے کی قیمت میں 73 ہزار تا 80 ہزار روپے کا ہوشربا اضافہ ہوچکا ہے۔
ندیم جیوا نے بتایا کہ سریا مہنگا ہونے سے فی اسکوائر فٹ تعمیراتی لاگت بڑھ کر 6 ہزار روپے تک پہنچ گئی ہے جبکہ آباد ممبران نے 4500 تا 5000 روپے اسکوائر فٹ پر اپنے کسٹمرز سے بکنگ حاصل کی ہوئی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ تعمیراتی شعبے میں 25 سے 30 فیصد اسٹیل کا استعمال ہوتا ہے، دو سال قبل فی ٹن سریے کی قیمت ایک لاکھ 30 ہزار روپے تھی جبکہ فی الوقت سریے کی فی ٹن قیمت 3 لاکھ روپے سے تجاوز کرگئی ہے۔
ندیم جیوا نے بتایا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے تعمیراتی شعبے کی سرگرمیاں اور ریکوریاں پہلے ہی متاثر ہیں، اسٹیل ملیں کارٹل بناکر قیمتیں بڑھا رہی ہیں، متعلقہ ریگولیٹری ادارے اور مسابقتی کمیشن کہاں ہیں؟۔ اسٹیل ملیں تیار سریا روک کر مہنگا کرکے فروخت کررہی ہیں۔
دوسری جانب پاکستان ایسوسی ایشن آف لارج اسٹیل پروڈیوسرز کے چئیرمین عباس اکبر علی کا کہنا ہے کہ مقامی اسٹیل انڈسٹری سرئیے کی قیمتوں میں اضافہ کرکے بھی منافع نہیں کمارہی۔ تعمیراتی شعبے کی جانب سے سریے کی خریداری روکنے کے اعلان سے واقف ہیں لیکن اسٹیل انڈسٹری کے پاس خام مال ہی دستیاب نہیں تو وہ سریا کیسے بنائے۔
انہوں نے کہا کہ فی الوقت مقامی اسٹیل پلانٹس 20 سے 35 فیصد پیداواری استعداد پر چل رہے ہیں، اسٹیل انڈسٹری کا خام مال پورٹ پر رکا ہوا ہے اور فی کنٹینر یومیہ 60 ڈالر ڈیٹینشن چارجز عائد ہورہے ہیں۔
عباس اکبرعلی نے ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیل انڈسٹری تیارشدہ سریا فروخت کرکے صرف ملازمین کی تنخواہیں اور انتظامی اخراجات پورے کررہی ہے، انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مقامی اسٹیل انڈسٹری کو ترجیحی فہرست میں شامل کرے۔
عباس اکبر علی کا کہنا تھا کہ اسٹیل انڈسٹری کو خام مال کی درآمدی ایل سی کھولنے کی اجازت بھی دیدی گئی تب بھی غیریقینی کی کیفیت برقرار رہے گی کیونکہ آنے والے چھ ماہ میں ڈالر کی شرح تبادلہ کیا ہوگی اس بارے میں کوئی علم نہیں ہے۔