جامعہ کراچی کی ساکھ داؤ پر، وائس چانسلر خالد عراقی کے دور میں آواز انسٹیٹیوٹ کو غیر معمولی مراعات

کراچی (رپورٹ عرفان فاروقی) جامعہ کراچی میں علم و تعلیم کا مقدس فریضہ اب کاروبار کی شکل اختیار کر گیا ہے۔ وائس چانسلر ڈاکٹر خالد عراقی کی مبینہ سرپرستی میں آواز انسٹیٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز (AIMS) کو غیر معمولی اختیارات اور مراعات دے کر طاقتور بنایا جا رہا ہے، جس سے جامعہ کی ساکھ اور طلبہ کا مستقبل سنگین خطرات سے دوچار ہو گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق نئے تعلیمی سال کے آغاز پر جامعہ کراچی کے مختلف اہم شعبہ جات میں داخلے کا اختیار آواز انسٹیٹیوٹ کو دے دیا گیا ہے، جو صرف 50 فیصد نمبروں کی بنیاد پر بغیر کسی انٹری ٹیسٹ کے داخلے جاری کر رہا ہے۔ حیران کن طور پر انسٹیٹیوٹ جامعہ کے مساوی یا کم فیس وصول کر کے بڑی تعداد میں طلبہ کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے۔ اس اقدام سے جامعہ کراچی کو بھاری مالی نقصان پہنچ رہا ہے اور یونیورسٹی کی سیلف فنانس پالیسی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ اصل منصوبہ آئندہ چند برسوں میں مزید شعبہ جات انسٹیٹیوٹ کے حوالے کر کے اسے مکمل پرائیویٹ یونیورسٹی کی شکل دینا ہے۔ جامعہ کے خزانے میں آنے والی رقوم براہِ راست انسٹیٹیوٹ کے اکاؤنٹس میں منتقل ہو رہی ہیں، جبکہ جامعہ کراچی تیزی سے مالی بحران کی طرف بڑھ رہی ہے۔
واضح رہے کہ جامعہ کراچی کی اکیڈمک کونسل نے چار برس قبل اسی انسٹیٹیوٹ پر سخت اعتراضات کیے تھے۔ اس وقت یہ ادارہ صرف شعبہ ماس کمیونیکیشن سے منسلک تھا، مگر فیکلٹی کی کمی، فیسوں کی شفافیت اور میرٹ کی خلاف ورزی پر تنقیدی رپورٹ کے باوجود انسٹیٹیوٹ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
ذرائع کے مطابق وائس چانسلر خالد عراقی اور ان کے قریبی اساتذہ نے انسٹیٹیوٹ کے دائرہ کار میں مزید شعبے شامل کرنے کے فیصلے کی منظوری دی۔ یہی نہیں، شعبہ پولیٹیکل سائنس کی ریٹائرڈ پروفیسر نصرت ادریس کو انسٹیٹیوٹ کی ریکٹر تعینات کرنے کے بعد دوبارہ جامعہ کراچی کے سینڈیکیٹ میں شامل کر لیا گیا ہے، جو جامعہ کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ کوئی ریٹائرڈ پروفیسر کسی پرائیویٹ ادارے سے وابستہ ہونے کے باوجود دوبارہ پالیسی ساز ادارے کا حصہ بن گئی ہوں۔
نصرت ادریس وہی شخصیت ہیں جنہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق محمود ولد قاضی محمد اکرم کی ڈگری منسوخ کرنے والے فیصلے میں ووٹ دیا تھا، جبکہ خود ان کے داخلے کی شفافیت پر بھی سوالیہ نشان موجود ہیں۔
ذرائع کے مطابق وائس چانسلر خالد عراقی اپنی مدتِ ملازمت مکمل ہونے کے بعد اسی انسٹیٹیوٹ کے نگران بننے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ان کے چھ سالہ دور میں آواز انسٹیٹیوٹ کو مسلسل نوازا گیا۔ پہلے یہ ادارہ پی ای سی ایچ ایس کے ایک چھوٹے بنگلے میں قائم تھا، مگر اب گلشن اقبال یونیورسٹی روڈ پر واقع پی ٹی سی ایل کی وسیع عمارت حاصل کر کے وہاں کلاسز شروع کر دی گئی ہیں۔
ماہرینِ تعلیم نے اس صورتحال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ جامعہ کراچی کے اس اقدام سے نہ صرف تعلیمی معیار کو شدید دھچکا لگے گا بلکہ ملک بھر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کی ساکھ بھی متاثر ہوگی۔ دنیا کی کسی معتبر جامعہ میں ایسا ممکن نہیں کہ وہ اپنی اسناد کسی متنازعہ ادارے کو تفویض کرے، لیکن جامعہ کراچی نے نہ صرف ماس کمیونیکیشن بلکہ کمپیوٹر سائنس، ٹیکسٹائل ڈیزائننگ سمیت دیگر چار سالہ پروگرام بھی اسی انسٹیٹیوٹ کے حوالے کر دیے ہیں۔
نتیجہ واضح ہے اب جس کے پاس پیسہ ہوگا، اسے ڈگری حاصل کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، جبکہ محنتی طلبہ کا مستقبل اندھیروں میں دھکیل دیا گیا ہے۔ تعلیمی حلقوں میں یہ سوال گونج رہا ہے
کیا جامعہ کراچی علم کا قلعہ ہے یا ڈگریوں کی منڈی-