شہر کے 50 سے زائد علاقے زیرِ آب، گلیاں اور شاہراہیں تالاب کا منظر پیش کرنے لگیں

کراچی (خصوصی رپورٹ) کراچی میں نکاسی آب کا بوسیدہ اور ناکارہ نظام ایک بار پھر شہریوں کے لیے سنگین مسئلہ بن گیا ہے۔ حالیہ بارشوں کے بعد شہر کے 50 سے زائد علاقے گندے پانی میں ڈوب گئے، جبکہ سڑکوں اور گلیوں پر کچرے کے انبار نے صورتحال مزید خراب کر دی ہے۔ یونیورسٹی روڈ سمیت اہم شاہراہیں اور گلیاں تالاب کا منظر پیش کر رہی ہیں، جبکہ کئی گھروں میں بھی پانی داخل ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں.
گلشنِ اقبال ،لانڈھی، کورنگی، لیاقت آباد، نارتھ کراچی، گارڈن، لیاری اور صدر سمیت درجنوں علاقے شدید متاثر ہیں۔ تعفن اور بدبو کے باعث شہریوں کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے، مگر بار بار شکایات کے باوجود متعلقہ ادارے ٹس سے مس نہیں ہو رہے۔
شہریوں کی مشکلات کے حل کے لیے ورلڈ بینک کی جانب سے کروڑوں ڈالر کی خطیر رقم سے KWSSIP منصوبہ شروع کیا گیا تھا، جس کے تحت کراچی کے فراہمی و نکاسی آب کے نظام میں بہتری اور واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن میں اصلاحات کا دعویٰ کیا گیا تھا تاہم اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود حالات مزید ابتر ہو گئے۔ محض ادارے کا نام بورڈ سے کارپوریشن میں بدل دیا گیا لیکن عوامی سہولت میں کوئی بہتری نہ آسکی۔ اس دوران تعینات ہونے والے پروجیکٹ ڈائریکٹرز مالی طور پر مستفید ضرور ہوئے، جن میں سابق پی ڈی رفیق قریشی اور عثمان معظم کے نام نمایاں ہیں۔
ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ گندے پانی اور کچرے کے باعث وبائی امراض تیزی سے پھیل سکتے ہیں ،اسپتالوں میں گیسٹرو، ڈائریا اور ہیضہ کے مریضوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جسے تشویشناک قرار دیا جا رہا ہے۔
شہری حلقوں نے موجودہ صورتحال کی ذمہ داری میئر کراچی کی ناقص کارکردگی پر ڈال دی ہے۔ عوامی نمائندوں کا کہنا ہے کہ میئر محض دعوؤں اور اعلانات تک محدود ہیں، جبکہ عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں، جس سے شہریوں کا اعتماد مجروح ہوا ہے۔
سیاسی اور سماجی رہنماؤں نے سوال اٹھایا ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے میٹروپولیٹن شہر کا انفراسٹرکچر آج تک بنیادی معیار پر بھی کیوں پورا نہیں اتر سکا۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ اگر فوری اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات نہ کیے گئے تو کراچی ایک بڑے ماحولیاتی اور صحت کے بحران کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
