
کراچی (خصوصی رپورٹ) واٹر کارپوریشن کی نااہلی اور کرپشن نے کراچی کے ساڑھے تین کروڑ شہریوں کو ورلڈ بینک کے 342 ارب روپے کا مقروض بنا دیا۔ یہ قرضہ آئندہ 40 برس تک شہریوں سے ٹیکس کی صورت میں وصول کیا جائے گا۔ حیران کن طور پر اب تک دو سو ارب روپے خرچ ہونے کے باوجود نہ پانی کا بحران ختم ہوا، نہ سیوریج کا نظام بہتر ہوا، نہ بارشوں میں شہریوں کو ریلیف ملا اور نہ ہی ادارے میں کوئی ریفارمز متعارف کرائی گئی۔
*فنڈز خردبُرد، شہر کے مسائل برقرار*
ذرائع کے مطابق قرضے کی نصف رقم خرچ کرنے کے باوجود واٹر کارپوریشن کے انفراسٹرکچر اور سروسز میں کوئی نمایاں تبدیلی سامنے نہیں آئی۔ البتہ افسران اور نظام کے کرتا دھرتا افراد کی جیبیں ضرور بھر گئی ہیں۔
*جرمن کنسلٹنٹ کمپنی کے ساتھ معاہدہ*
ورلڈ بینک کی سفارش پر جرمن کمپنی GFA سے معاہدہ کیا گیا تھا، جس کے تحت اگست 2023 سے اگست 2025 تک ادارے میں انسانی وسائل، کسٹمر سروس، کمیونیکیشن سسٹم اور مالی شفافیت میں بہتری لانا تھی۔ اس مقصد کے لئے 90 کروڑ روپے مختص کئے گئے۔
*کمیشن اور رشوت کا مطالبہ*
پراجیکٹ کے دوران سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر رفیق قریشی، اور انکے دست راست منظور سیال ،ایوب شیخ اور عثمان معظم سمیت دیگر نے کمپنی کے کام میں رکاوٹیں ڈالیں۔ اطلاعات کے مطابق بلال ظفر نامی شخص نے کمپنی سے 45 کروڑ روپے کمیشن مانگا، جس کے بعد منصوبہ مشکلات کا شکار ہوگیا۔ جرمن کمپنی نے معاملہ ورلڈ بینک کو رپورٹ کردیا۔
*جایکا ماسٹر پلان بھی متنازع انجام سے دوچار*
اس سے قبل جاپان کی کمپنی جایکا نے 2008 میں کراچی کے ٹرانسپورٹ، پانی اور سیوریج کا ماسٹر پلان تیار کیا تھا، مگر سندھ حکومت نے کمیشن نہ ملنے پر فنڈز دینے سے انکار کردیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اربوں روپے ضائع ہوئے اور عالمی اداروں کا اعتماد مجروح ہوا۔
*سرمایہ کاری داؤ پر*
کراچی واٹر اینڈ سیوریج سروسز امپرومنٹ پروجیکٹ میں ڈائریکٹرز کی بار بار تبدیلی سے عالمی مالیاتی اداروں کی سرمایہ کاری خطرے میں ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ادارہ جلد خودمختار تو ہو جائے گا لیکن بدعنوانی کی وجہ سے مالی طور پر محتاج ہی رہے گا۔
*تحقیقات کا مطالبہ*
سماجی حلقوں نے نیب اور دیگر تحقیقاتی اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ KWSSIP فنڈز کی خردبرد اور کرپشن کی کھلی تحقیقات کی جائیں تاکہ واٹر کارپوریشن کو مزید نقصانات سے بچایا جا سکے۔
