
کراچی (رپورٹ: عرفان فاروقی) کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن ایک نئے اور سنگین بحران میں داخل ہو گئی ہے۔ تین کروڑ سے زائد آبادی والے شہر میں پانی اور سیوریج جیسے حساس معاملات چلانے کے لیے حکومت نے ایک نان ٹیکنیکل افسر احمد علی صدیقی کو سی ای او تعینات کیا ہے۔ عہدہ سنبھالتے ہی انہوں نے اپنی تکنیکی کمی کو چھپانے کے لیے ریٹائرڈ افسر ظفر احمد کو بطور ٹیکنیکل ایڈوائزر رکھ لیا، جبکہ متنازع کنسلٹنٹ کمپنیوں ٹیکنو انٹرنیشنل اور عثمانی اینڈ کمپنی سمیت نئی نجی کمپنیوں کو بھاری معاوضوں پر وسیع اختیارات سونپ دیے گئے ہیں۔
12 اگست 2025 کو جاری ہونے والے حکم نامے کے تحت ٹیکنو انٹرنیشنل کو ہنگامی ترقیاتی کاموں اور سالانہ مینٹیننس کنٹریکٹس کی نگرانی کا ذمہ دار بنایا گیا ہے۔ کمپنی کو سپرا رولز کے تحت سائٹ وزٹ، تخمینے، سرٹیفکیٹ اور ادائیگیوں کی جانچ کے اختیارات بھی مل گئے ہیں۔ تاہم ماہرین سوال اٹھا رہے ہیں کہ ماضی میں یہی کمپنی ایس تھری منصوبے اور زمینوں کے ریکارڈ کے حوالے سے تنازعات میں گھری رہی، اور کئی رپورٹس تاحال واٹر بورڈ کو جمع نہیں کرائی گئیں۔ اس کے باوجود اسے دوبارہ حساس ذمہ داریاں دینا سمجھ سے بالاتر قرار دیا جا رہا ہے۔
سی ای او احمد علی صدیقی نے براہ راست اپنی نگرانی میں پانچ ٹیکنیکل کمیٹیاں تشکیل دی ہیں، جنہیں تخمینہ، نگرانی، آڈٹ اور ویری فیکیشن جیسے اہم امور سونپے گئے ہیں۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کمیٹیوں میں شامل افسران تکنیکی تجربے سے محروم ہیں۔ ادارے کے اندر یہ تاثر بھی موجود ہے کہ کمیٹیوں کا قیام دراصل چیف آپریٹنگ آفیسر (COO) پر عدم اعتماد ہے، حالانکہ یہ عہدہ ورلڈ بینک کی سفارش پر بنایا گیا تھا تاکہ ایم ڈی اور سی ای او کو ٹیکنیکی معاونت فراہم ہو۔ موجودہ COO نہ صرف غیر فعال ہیں بلکہ طویل رخصت پر امریکا روانہ ہونے والے ہیں۔
سی ای او احمد علی صدیقی کی غیر تکنیکی قیادت اور کنسلٹنٹس پر مکمل انحصار نے ادارے کے اندرونی ڈھانچے کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اہم ٹیکنیکل عہدے خالی ہیں، افسران ذمہ داریاں لینے سے گریزاں ہیں اور نتیجہ یہ ہے کہ کراچی کا پانی اور سیوریج نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ شہری پہلے ہی پانی کی بوند بوند کو ترس رہے ہیں، جبکہ پرانا نکاسی کا نظام وبائی امراض کے پھیلاؤ کا سبب بن رہا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ موجودہ سی ای او احمد علی صدیقی کو ورلڈ بینک کی معاونت کے تحت تعینات کیا گیا تھا، لیکن انہوں نے اپنی ناتجربہ کاری کے باعث تمام فیصلے کنسلٹنٹ کمپنیوں کے حوالے کر دیے ہیں۔ سینئر افسران نے واضح انکار کر دیا ہے کہ وہ ان کے فیصلوں کا حصہ نہیں بنیں گے۔
زرائع کا کہنا ہے کہ ورلڈ بینک نے خطیر رقم خرچ کر کے ادارے میں نئے عہدے اور ڈھانچے تو بنائے مگر اب خاموش تماشائی بن گیا ہے۔ عوام سوال کر رہے ہیں کہ کیا کراچی کے پانی اور سیوریج مسائل حل ہوں گے یا کنسلٹنٹ کمپنیوں کو نوازنے کا سلسلہ جاری رہے گا-
واٹر کارپوریشن کے اندر طاقت کی رسہ کشی، کنسلٹنٹس پر اندھا انحصار اور غیر تکنیکی قیادت نے ادارے کو سنگین بحران میں دھکیل دیا ہے۔ ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر فوری طور پر تجربہ کار انجینئرز اور ماہر ٹیکنیکل قیادت کو ذمہ داریاں نہ دی گئیں تو آنے والے دنوں میں کراچی کو شدید پانی اور سیوریج بحران کا سامنا ہوگا، جس کا خمیازہ براہ راست عوام کو بھگتنا پڑے گا۔
