
تحریر: ارشد خان
ترجمان انوسٹی گیشن ڈسٹرکٹ کیماڑی، ساؤتھ زون، کراچی۔
4 اگست ہر سال ہمارے قومی تقویم میں ایک ایسا دن ہے جو ہمیں جھنجھوڑ دیتا ہے، ہماری آنکھیں نم کرتا ہے، اور ہمارے دلوں کو جھکا دیتا ہے یہ ہے یومِ شہداء پولیس، وہ دن جب ہم ان جانبازوں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے امن و امان کی جنگ میں اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے تاریخ کے صفحات پر اپنا نام سنہری حروف میں رقم کیا۔
جس طرح ہماری مسلح افواج سرحدوں پر دشمن کے ناپاک ارادوں کے خلاف سینہ سپر ہو کر جانوں کا نذرانہ دے کر وطن عزیز کا دفاع کرتی ہیں، اُسی طرح اندرونی محاذ پر پولیس فورس، خصوصاً سندھ پولیس، جرائم، دہشتگردی، بھتہ خوری، اغوا، اور دیگر معاشرتی ناسوروں کے خلاف ہر روز موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کھڑی ہوتی ہے۔ ان کا ہدف نہ شہرت ہوتا ہے، نہ مراعات صرف ایک مقصد عوام کی جان، مال اور عزت کی حفاظت۔
کراچی کی پرہجوم گلیوں سے لے کر کشمور کے سنسان راستوں تک، تھر کے ریگزاروں سے لے کر شکارپور کے بازاروں تک سندھ پولیس کا ہر جوان اپنے خون سے امن کے پھول کھلاتا آیا ہے۔ آج اگر ہم بلا خوف و خطر بازاروں میں گھومتے ہیں، اپنے بچوں کو اسکول بھیجتے ہیں، اور رات کی نیند سکون سے سوتے ہیں تو اس کے پیچھے ان شہداء کا لہو ہے جو خاموشی سے ہمارے لیے قربان ہوئے۔یاد کیجیے انسپکٹر شفیق تنولی کو، جو کئی بار دہشتگردوں کا ہدف بنے، مگر میدان نہ چھوڑا۔ یاد کیجیے ایس پی چوہدری اسلم کو، جو دھماکوں اور حملوں کے باوجود آخری لمحے تک ڈٹ کر لڑے۔ یاد کیجیے وہ سپاہی جو کسی محلے کی گلی میں معمولی تنخواہ اور بغیر بلٹ پروف جیکٹ کے، صرف فرض کی خاطر جان پر کھیل گئے۔ یاد کیجیے ان گمنام سپاہیوں کو، جو نہ شہ سرخیوں میں آئے، نہ ان کے نام پر سڑکیں بنیں۔کراچی سے کشمور تک، پہاڑوں سے میدانوں تک، ہر تھانے کی دیوار پر کوئی نہ کوئی نام ایسا ضرور درج ہے جس نے اپنے لہو سے امن کے چراغ کو روشن کیا۔

لیکن اصل عظمت ان خاندانوں کی ہے جنہوں نے اپنے لختِ جگر، اپنے سروں کے سائے، اپنے سہاگ، اپنے نونہال اس دھرتی پر قربان کر دیے۔ وہ مائیں جن کے بیٹے وردی پہن کر گئے، مگر واپس تابوت میں آئے ان کی آہ میں بھی دعا ہوتی ہے اور صبر کی ایسی مثال جو قوموں کو زندہ رکھتی ہے۔ وہ بیوائیں جنہوں نے اپنے شوہر کے جنازے کو کمرے کے دروازے سے رخصت کیا، اور پھر اپنے بچوں کو فخر سے پالا۔ وہ بچے جنہوں نے اپنے والد کی قبر کو سلام کرنا سیکھا، وہی اصل ہیرو ہیں، جنہوں نے قربانی کی قیمت چکائی۔
یومِ شہداء ہمیں صرف ماضی کی یاد نہیں دلاتا، بلکہ یہ دن ہمیں جھنجھوڑتا ہے کہ ہم ان عظیم قربانیوں کو یاد رکھیں، ان کے مشن کو زندہ رکھیں، اور ان کی فیملیوں کے ساتھ عملی اظہارِ یکجہتی کریں۔ سندھ پولیس اپنے شہداء پر فخر کرتی ہے اور شہداء کے ورثاء کی دیکھ بھال اور مراعات کے ساتھ ساتھ شہداء کے بچوں کی تعلیم، تحفظ اور ایک روشن مستقبل کے لیے ہمہ وقت کوشاں ہے۔
یہ دن اس عہد کی تجدید کا دن ہے کہ ہم ان شہداء کا مشن جاری رکھیں گے۔ ہم ان کے خون سے روشن کیے گئے راستے پر چلیں گے، اور جب بھی کوئی وردی پہنے جوان ہماری حفاظت کے لیے کھڑا ہو، ہم اس کی عزت کریں گے، اس کی حوصلہ افزائی کریں گے، کیونکہ وہ ہماری پہلی دفاعی لائن ہے، ہمارا اندرونی محافظ۔
آئیے، 4 اگست کو یومِ شہداء پولیس کے طور پر مناتے ہوئے ہم ان عظیم قربانیوں کو سلام پیش کریں، اور عہد کریں کہ ہم ان کا نام زندہ رکھیں گے۔