راولپنڈی:غیرت کے نام پر قتل 17 سالہ لڑکی کی قبرکشائی کا حکم، واردات کی لرزہ خیز رپورٹ عدالت میں پیش

سفاک ملزمان نے پہلے سر پر تکیہ رکھا، چند سانس باقی تھے پھر گلا دبایا، سدرہ کے لرزہ خیز قتل کی رپورٹ عدالت میں پیش

راولپنڈی میں غیرت کے نام پر 17 سالہ سدرہ کے قتل کیس میں عدالت نے مقتولہ کی قبر کشائی کا حکم جاری کر دیا۔

سول جج قمر عباس تارڑ نے قبر کشائی کا حکم دیا اور قبر کشائی کے لیے 28 جولائی بروز پیر کی تاریخ مقرر کردی، عدالت نے پولیس کی درخواست منظور کرتے ہوئے ہولی فیملی اسپتال کا میڈیکل بورڈ مقرر اور مجسٹریٹ بھی تعینات کردیا۔

میونسپل کارپوریشن کا عملہ قبر کشائی کرے گا، گرفتار 3 ملزمان کا 3 دن کا جسمانی ریمانڈ بھی منظور کرلیا گیا۔

ملزمان راشد گورکن سیکریٹری قبرستان سیف الرحمان، رکشہ ڈرائیور خیال محمد کو منگل 29 جولائی پیش کرنے کا حکم دیا گیا،  مقدمہ میں مجموعی طور 32 ملزمان نامزد ہیں۔

جرگہ کے تمام ممبران بھی ملزم نامزد کر دئیے گئے، مقتولہ کا والد، سسر، بھائی والدہ بہن دو چچیاں بھی ملزمان کی فہرست شامل ہیں۔

عدالت میں پیش رپورٹ کے مطابق مقتولہ کی جنوری 2025 میں شادی کے 4  ماہ بعد زبانی طلاق ہوئی، طلاق کے بعد مقتولہ نے عثمان سے دوسری شادی کی مگر جرگہ پھر اسے چھین لایا۔

مقتولہ سے دوسری شادی کرنے والا عثمان بھی گرفتار ہے، رپورٹ کے مطابق بغیر کفن اور بغیر جنازہ کے گڑھا کھود کر دفنایا گیا، جرگہ کا چئرمین سابق یونین کونسل بھی گرفتار ہوگیا۔

قبر کشائی کے بعد میڈیکل بورڈ ہوگا، ڈاکٹرز وجہ قتل کی رپورٹ دینگے، مقتولہ کے جسم کے اعضا فرانزک لیب ٹیسٹ کیلئے لاہور فرانزک کے لئے بھیجے جائیں گے۔

رکشہ ڈرائیور خیال محمد نے اعتراف جرم کر لیا، گورکن راشد محمود نے بھی بغیر جنازہ، بغیر قبر بنائے زمین برابر کرنے کا اعتراف کرلیا۔

وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے بھی غیرت کے نام پر اس قتل کی رپورٹ طلب کر لی، تھانہ ذرائع نے کہا کہ تھانہ تفتیشی ٹیم نے جرم کو درست قرار دیتے آئی جی پنجاب کو رپورٹ بھیج دی۔

تفتیشی رپورٹ کے مطابق ملزمان نے پہلے سر پر تکیہ رکھ رکھا، پھر چند سانس باقی تھے گلا دبایا۔

عدالت نے ریمارکس  دیے کہ گورکن کا کام قبر چھپانا نہیں بنتا، رکشہ میں دو گھنٹے ڈیڈ باڈی کیوں رکھی گئی؟ پھر مٹی ڈال کر قبر برابر کر دی، سچ اور حقیقت تک پہنچنے کے لیے قبر کشائی ضروری ہے۔

تفتیشی آفیسر نے کہا کہ پوسٹ مارٹم، فرانزک لیب ٹیسٹ سے کیس واضح ہو جائے گا، عدالت نے منگل 29 جولائی قبر کشائی مکمل کر کے رپورٹ دینے کا حکم دیدیا۔

مقتولہ سدرہ  کا خاندان 45 سال قبل 1980 میں مہمند ایجنسی سے فوجی کالونی پیرودھائی راولپنڈی آباد ہوا، مقتولہ کا والد عرب گل، والدہ بفر بی بی،  بہن نائلہ بی بی، بھائی ظفر شامل ہیں۔

مقدمہ میں قتل، لاش کی بے حرمتی، قتل شواہد چھپانے کی سنگین دفعات بھی شامل

سدرہ قتل کیس میں گرفتار گورکن، سیکرٹری قبرستان، رکشہ ڈرائیور کا قتل کیس کے تحت بھی جسمانی ریمانڈ لینے کا فیصلہ کرلیا گیا۔

پولیس نے تمام 32 نامذد ملزمان کو قتل، لاش کی بے حرمتی کی دفعات کے تحت کیس میں بھی نامزد کرنے کا فیصلہ کیا ہے، پہلے مقدمے میں سدرہ کے اغوا کی دفعہ شامل تھی، اب یہ دفعات بڑھا دی گئی ہیں۔

سدرہ کے قتل سے متعلق ایکسپریس نیوز ہوش ربا انکشافات سامنے لے آیا

رپورٹ کے مطابق ملزمان نے قبرستان کمیٹی کے ممبر و گورکن کی ملی بھگت سے لاش خاموشی سے دفنا کر قبر کے نشانات تک مٹا ڈالے۔

سنگین جرم کے بعد ملزمان نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ الجھانے کے لیے سدرہ کے اغوا کا مقدمہ بھی درج کرادیا لیکن چالاکی ان کا جرم نہ چھپاسکی اور پولیس تحقیقات نے سب کچھ کھول کررکھ دیا۔

پولیسں تفتیش سے جڑے ذرائع کے مطابق ضیا الرحمان کی اہلیہ مسماتہ سدرہ خاوند سے ناچاقی پر 11 جولائی کو گھر سے لاپتا ہوئی، باڑہ مارکیٹ کے تاجر رہنما عصمت اللہ اور سدرہ کا والد عرب گل و خاوند ضیا الرحمن سب آپس میں رشتہ دار ہیں۔

سدرہ گھر سے غائب ہوئی تو خاوند و والدین کو اس کے عثمان نامی لڑکے سے مبینہ تعلق کا پتا چلا جس پر تمام افراد اسی علاقے میں عثمان کے گھر گئے لیکن وہ موجود نہ تھا نہ ہی سدرہ ملی۔

16 جولائی کی شب عصمت اللہ، سدرہ کا والد اور بھائی وغیرہ مظفر آباد گئے جہاں سدرہ کی موجودگی کا پتا چلا، انہوں نے  جرگہ کیا اور  منت سماجت کرکے سدرہ کو واپس راولپنڈی لے آئے۔

سدرہ کو مظفرآباد سے واپس لانے اور جرگہ منعقد کرنے میں باڑہ مارکیٹ کا تاجر و دکاندار عصت اللّٰہ، سدرہ کا والد عرب گل، خاوند ضیا الرحمن و اس کا والد صالح محمد و دیگر رشتہ دار شامل رہے۔

17 جولائی کی صبح 4 بجے عصمت اللّٰہ کی سربراہی میں جرگے نے حکم سنایا کہ گھر سے نکل کر سدرہ جینے کا حق کھو چکی ہے جس پر چچا سسر، والد اور بھائی وغیرہ نے اسے کمرے میں لے جا کر تکیے کے ذریعے دم گھونٹ کر مبینہ طور پر قتل کردیا۔

خواتین نے گھر میں غسل دیا اور عصمت اللّٰہ نے گھر میں ہی نماز جنازہ پڑھائی اور قبرستان کمیٹی کے ممبر و گورکن کی ملی بھگت سے لاش خاموشی سے دفنا کر قبر کے نشانات تک مٹا ڈالے۔

سنگین جرم کے بعد ملزمان نے چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معاملہ الجھانے کے لیے سدرہ کے اغوا کا مقدمہ بھی درج کرادیا۔

اس دوران پولیس کو مشکوک سرگرمی کی اطلاع ملی تو پولیس نے تحقیقات شروع کردی جس کے خوف سے 20 جولائی کو عصمت اللہ،  اس کے بھائی اور سدرہ کے خاوند نے چالاکی دیکھانے کی کوشش کرتے ہویے معاملہ مزید الجھانے کے لیے سی پی او راولپنڈی کو سدرہ کے اغوا و عثمان سے نکاح کرنے کی درخواست دے ڈالی۔

ملزمان نے ساتھ ہی عدالت میں 22 اے کی درخواست بھی دی کہ پولیس مقدمہ درج نہیں کررہی، راولپنڈی پولیس جو پہلے ہی تحقیقات میں مصروف تھی، اوپر تلے سی پی او اور عدالت میں درخواست دینے پر مزید الرٹ ہوگی۔

پولیسں نے قبرستانوں میں تازہ قبروں اور ان کے  ریکارڈ کو چیک کرنا شروع کیا، پولیس نے گورکن ارشاد اور قبرستان کمیٹی کے ممبر کو موقع پر ہی گرفتار کرلیا تو کیس کی تمام کڑیاں کھلتی چلی گئیں۔

پولیس نے سدرہ کے سسرال اور والدین کے گھر کے افراد کو تحویل میں لے لیا۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*