اسلام آباد (فاروق اقدس/تجزیاتی جائزہ) وقفہ ختم، 27ویں آئینی ترمیم کیلئے ملاقاتوں، رابطوں کا سلسلہ شروع، شہباز سے بلاول کی وفود کی سطح پر ملاقات، حکمت عملی وضع ، جے یو آئی اور ایم کیو ایم کو ’’آن بورڈ‘‘ لیا جائیگا۔
27ویں ترمیم کی منظوری کیلئے سرگرمیاں غیر محسوس انداز میں آگے بڑھیں گی، سیاسی ہیجان دیکھنے میں نہیں آئیگا۔
وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کیلئے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا خصوصی طور پر لاہور آنا پھر ان کے وفد میں پارٹی کے اہم راہنماؤں کی شرکت تو دوسری طرف بلخصوص قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق اور وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کی موجودگی اس قیاس کو یقینی بناتی ہے کہ نہ صرف یہ ملاقات بلکہ اس کا ایجنڈا بھی پہلے سے طے تھا اور وزیراعظم شہباز شریف اس یقینی ملاقات کیلئے لاہور میں اپنی رہائش گاہ ماڈل ٹاؤن میں موجود تھے۔
گوکہ بلاول بھٹو کا میڈیا میں کہنا تھا کہ وہ پولو کلب کی ایک تقریب میں شرکت کیلئے لاہور آئے ہیں لیکن ان کی ملاقات لاہور میں صرف وزیراعظم شہباز شریف تک ہی محدود تھی۔
گوکہ ایک حکومتی حلقے کا یہ کہنا ہے کہ ملاقات میں 27ویں آئینی ترمیم بات ضرور ہوئی لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ اس حوالے سے پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان اتفاق رائے ہوا۔
تاہم مصدقہ ذرائع کے مطابق اس ملاقات میں 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد 27 ویں ترمیم کیلئے حکمت عملی وضع کرنے اور اس مقصد کیلئے پارلیمانی ایوان میں دوبارہ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے پر مشاورت ہوئی اور اسی موضوع اور حکمت عملی کے باعث وزیر قانون اور قومی اسمبلی کے سپیکر اس مشاورت میں شامل تھے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل ایم کیو ایم کے راہنماؤں سمیت پیپلز پارٹی کے مرکزی لیڈر جن میں گورنر کے پی کے فیصل کریم کنڈی بھی شامل ہیں یہ واضح کر چکے ہیں کہ 27 ویں ترمیم آنی ضرور ہے لیکن کب آئے گی اس کا علم نہیں۔
جبکہ ایم کیو ایم کے راہنما فاروق ستار کا تو یہ بھی کہنا تھا کہ 27 ویں آئینی ترمیم کے حوالے سے ہمارا مسلم لیگ (ن) کے ساتھ معاہدہ ہوچکا ہے، جس کی تصدیق وزیراعظم کے مشیر رانا ثناء اللّٰہ بھی کرچکے ہیں جو ریکارڈ پر موجود ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم نے اتحادی جماعتوں سے وعدہ کیا تھا کہ 27 ویں آئینی ترمیم لائی جائے گی جس میں ملٹری کورٹس بنانے کی بھی بات ہوگی تاہم ان کا یہ بھی موقف تھا کہ ہم چاہتے ہیں کہ فاٹا جیسے مخصوص علاقوں میں ہی ملٹری کورٹس قائم کی جائیں۔
ذرائع کے مطابق امکانی طور پر وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹو کے درمیان ماڈل ٹاؤن میں وفود کی سطح پر مشاورت اور حکمت عملی وضع کرنے کے بعد اس پر پیشرفت کا آغاز آج (پیر) ہی سے اسلام آباد میں شروع ہوجائے گا۔
تاہم فی الوقت اس کی تشہیر اور سرگرمیاں غیر محسوس انداز میں آگے بڑھیں گی اور سیاسی ہیجان دیکھنے میں نہیں آئے گا جیسا کہ 26 ویں آئینی ترمیم کے موقعہ پر ایک ماہ تک جاری رہا تھا۔ اور نہ ہی ترمیم منظور کرانے کے حوالے سے کسی عجلت کا مظاہرہ ہوگا۔
تاہم یہاں یہ پہلو سنجیدگی کے ساتھ ساتھ دلچسپی اور تجسس کے ساتھ بھی دیکھنے کا انتظار ہوگا کہ کیا ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی مولانا فضل الرحمان کی رہائش گاہ اہم حکومتی، سیاسی اور دیگر اعلیٰ سطحی شخصیات کی آماجگاہ بنے گی، کیا پھر قائدین کی ملاقاتوں، رابطوں اور پیغام رسانی کیلئے شب و روز کی سرگرمیوں کا وہی سلسلہ جاری رہے گا جو 26 ویں آئینی ترمیم کے موقعہ پر تقریباً ایک ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری رہا تھا؟
تاہم 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری سے لیکر اب تک جو واقعات اور بیانات سامنے آئے ہیں ان کے پیش نظر بادی النظر میں تو ایسا ماحول نظر آتا ہے کیونکہ بلاول بھٹو ایک غیرملکی نشریاتی ادارے کو اپنے انٹرویو میں غیر مبہم الفاظ میں یہ کہہ چکے ہیں کہ 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کیلئے ہمارے پاس مطلوبہ نمبر پورے تھے اور 26 ویں ترمیم مولانا کی حمایت کے بغیر بھی منظور ہوسکتی تھی۔
اگر دیکھا جائے تو مولانا فضل الرحمان اور ان کی جماعت کیلئے بلاول بھٹو کا یہ بیان خاصا بڑا اور سنجیدہ دھچکا ہے پھر مولانا فضل الرحمان گزشتہ دو تین دن سے چنیوٹ اور خوشاب کے تنظیمی اجتماعات میں اپنا یہ موقف دہرا رہے ہیں کہ اگر 27 ویں ترمیم پیش کی گئی تو جے یو آئی اس کی بھرپور مزاحمت کرے گی اور اس کے ساتھ ہی وہ ملک میں دوبارہ انتخابات کے انعقاد کا مطالبہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
اب آنے والے دنوں میں واضح ہو جائے گا کہ مولانا فضل الرحمان جو طرز عمل اختیار کرتے ہیں اسے ان کی کامیابی، شکست، حکمت عملی یا پھر ان کے مخالفین اسے کچھ اور نام دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ حکومتی شخصیات کی جانب سے ایک سے زیادہ مرتبہ یہ بھی کہا جاچکا ہے کہ آئین کی 27 ویں ترمیم کی منظوری کیلئے ہمیں جے یو آئی کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہوگی۔
جناب ایم کیو ایم کا تو کیا ہی کہنا وہ تو تھالی کے بیگن ہے بے پیندی کے لوٹے جہاں دیکھو وہ لڑک جاتے ہیں اپنی مفاد کے لیے تو وہ اپنی قوم کو بیچ چکے ہیں قوم کا سودا کر کے بھی ان کو سکون نہیں ملا بغیرتوں کو 27 فیصد 227 ویں ائین بھی ا جائے تب بھی انشاءاللہ ان کی خواہش کبھی پوری نہیں ہوگی انصاف ہوگا ہوگا اور ہو کر ہی رہے گا کیونکہ لگ رہا ہے کہ اب ججوں کو ہوش اگیا ہے اب وہ قاضی جیسے فیصلے کبھی نہیں کریں گے پھٹکار قاضی کے منہ پہ لعنت قاضی کی شکل پہ اللہ اس کو غرق کرے اس دنیا میں عبرت کا نشان بنائے اس دنیا میں جس نے بھی اس ملک کو برباد کیا اپنی مفاد کے لیے اللہ پاک اس کو تباہ و برباد کرے امین ثم امین