امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ میں اسرائیلی جارحیت کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی ملک کو حق ہے وہ یقینی بنائے کہ اس پر دوبارہ حملہ نہ ہو۔ دنیا 7 اکتوبر کے حملوں کو نظر انداز نہیں کرسکتی۔ لبنان اسرائیل تنازع کا سفارتی حل اب بھی ممکن ہے، خطے کو لپیٹ میں لینے والی جنگ کو روکنے کےلیے پرعزم ہوں۔
نیو یارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ 79واں اجلاس سے خطاب میں امریکی صدر کا کہنا تھا کہ یہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے میرا چوتھا اور آخری خطاب ہے۔
انہوں نے کہا کہ دنیا کو اس وقت بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے، دنیا میں بہت سے لوگ مشکلات کو دیکھ رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں مشکلات سے نکلنے کا راستہ ہوتا ہے۔
جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ میں نے بطور صدر افغان جنگ ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
اپنے خطاب میں امریکی صدر اسرائیل کی زبان بولنے لگے اور کہا کہ ہر ملک کو اس بات کو یقینی بنانے کا حق ہے کہ اس پر دوبارہ حملہ نہ ہو۔ دنیا کو 7 اکتوبر کی ہولناکیوں کو نہیں بھولنا چاہیے، اسرائیل پر حماس نے حملہ کیا اور 1200 لوگ مارے گئے جس میں 40 سے زائد امریکی بھی شامل تھے۔
انکا کہنا تھا کہ غزہ میں شہری اور یرغمالی ہولناک لمحات سے گزر رہے ہیں، غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کی گھر واپسی کی ڈیل کا وقت آگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہاں ہزاروں لوگ مارے گئے جن میں ایڈ ورکرز بھی شامل تھے۔ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور قحط کی سی صورتحال پیدا ہوئی۔
تاہم امریکی صدر نے حماس اور اسرائیل پر جنگ بندی کیلئے زور دیتے ہوئے کہا کہ فریقین امریکا کی تجویز کردہ جنگ بندی کو قبول کریں۔
امریکی صدر نے اپنی تقریر میں یوکرین کی حمایت جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا اور کہا کہ "اچھی خبر یہ ہے کہ پیوٹن کی جنگ اپنے بنیادی مقصد میں ناکام رہی ہے۔”
جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ "اس کا مقصد یوکرین کو تباہ کرنا تھا لیکن یوکرین اب بھی آزاد ہے۔ اس کا مقصد نیٹو کو کمزور کرنا تھا لیکن نیٹو پہلے سے زیادہ بڑا، مضبوط اور متحد ہے۔”
چین کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ امریکا کو چین کے ساتھ مسابقتی مقابلے کو ذمہ داری سے سنبھالتے ہوئے اپنے اصولوں کو برقرار رکھنا ہوگا تاکہ یہ مقابلہ کسی تنازع میں نہ بدل جائے۔”