
پاکستان تحریک انصاف کے بانی چئیرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان ایک سال سے جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں مگر اس دوران کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوا کہ ایسا نہیں ہے۔
سابق وزیر اعظم عمران خان اب بھی پاکستانی سیاسی منظرنامے پر نہ صرف حزب اختلاف کی بڑی بلکہ غالب طاقت ہیں۔ ان کا نام آج بھی اخباروں میں پڑھا اور عدالتوں میں سنا جاتا ہے۔ ان کے سوشل میڈیا حامیوں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔
انھیں عوام کے سامنے آنے کی اجازت نہیں ہے اور اگر کسی کو انھیں جیل میں باقاعدگی سے ملاقات کی اجازت ہے تو وہ ان کے وکلا اور اہلخانہ ہیں۔ اور یہی لوگ بیرونی دنیا کے لیے ان کے پیغام رساں بھی ہیں۔
اور وہ ان کے اس پیغام کو آگے بڑھا رہے ہیں کہ 365 دن جیل کی سلاخوں کے پیچھے رہنے کے بعد بھی وہ پیچھے نہیں ہٹے
عمران خان کی بہن علیمہ خانم کہتی ہیں کہ ’وہ آج بھی پراعتماد ہیں۔ انھیں کچھ نہیں چاہیے۔ ان کی کوئی ذاتی خواہش نہیں ہے، بلکہ صرف ایک مقصد ہے۔‘
ان سے ملاقات کرنے والوں کے مطابق عمران خان جیل میں اپنے دن اپنی ایکسرسائز بائیک پر ورزش کرنے، مطالعہ کرنے میں اور غور و فکر میں گزارتے ہیں۔ انھیں دن میں ایک گھنٹے کے لیے جیل سے متصل برآمدے میں چہل قدمی کی اجازت ہے۔ اس بارے میں کبھی کبھار اختلافات ہوتے رہے ہیں کہ ان کے اہلخانہ انھیں کتنی جلدی نئی کتابیں فراہم کر سکتے ہیں۔
عمران خان کی بہن علیمہ خانم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ (عمران خان) کہتے ہیں کہ جیل میں اپنے وقت کا ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتا کیونکہ یہ میرے لیے مزید علم حاصل کرنے کا موقع ہے