پولیس کی مبینہ فائرنگ سے خاتون کی ہلاکت پر اہل خانہ کے احتجاج کے باعث ہزاروں شہری رل گئے
کراچی کے علاقے اسٹیل ٹاؤن میں پولیس کی مبینہ فائرنگ سے خاتون کی ہلاکت پر اہل خانہ نے نیشنل ہاٸی وے پر احتجاج 28 گھنٹے بعد ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ طویل احتجاج کے باعث ہزاروں شہری رل گئے اور کراچی سے ٹھٹھہ تک گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ گئی تھیں۔
کراچی میں 2 روز قبل پولیس کی مبینہ فائرنگ سے خاتون کی ہلاکت پر لواحقین نے نیشنل ہائی وے پر طویل احتجاج کیا، لواحقین نے ٹول پلازہ گھگھر قومی شاہرہ پر دھرنا دے رکھا تھا۔ تاہم گزشتہ روز سے جاری دھرنا ختم کرتے ہوئے مقتولہ کے بھائی یعقوب سموں نے کہا کہ واقعے کے بعد سے ہماری کوئی بات نہیں سنی جارہی، قاتلوں کی مدعیت میں مقدمہ درج کردیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ہم اس مقدمے میں شامل ہو کر بیان نہیں دے سکتے، ہم نے احتجاج کیا اور امید رکھی کےانصاف کیا جائیگا، ہم اب معاملہ الله پاک پر چھوڑتے ہیں، ہمیں انصاف نہیں ملا الله پاک ہی بہتر انصاف کرنے والا ہے۔
یعقوب سموں کا کہنا تھا کہ ایف آئی آر ہماری مرضی سے نہیں ہوئی، انصاف کی کسی سےامید نہیں، پولیس ہی ہماری بہن کی قاتل ہے۔
کراچی : ڈی آئی جی ایسٹ غلام اظفر مہیسر
غلام اظفر مہیسر نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ متاثرین کی گاڑی کراس فائرنگ کی رینج میں آئی، ہم جوڈیشنل انکوائری کیلئے تیار ہیں، اگر پولیس نے غلطی کی ہے تو پولیس والے اندر جائیں گے۔
واضح رہے کہ نیشنل ہاٸی وے پر احتجاج کے باعث پکنک پر جانے اور واپس آنے والی فیملیز رل گئیں، کئی گھنٹوں تک شہری سڑک پر پھنسے رہے۔ نیشنل ہائی وے پر شدید ٹریفک جام رہا ، کراچی سے ٹھٹھہ تک ہیوی گاڑیوں کی قطاریں لگ گئی تھیں۔
احتجاج کے وقت ٹریفک پولیس کا کہنا تھا کہ ٹریفک کو متبادل راستوں پر موڑا جا رہا ہے۔
مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ ایس ایس پی، ایس ایچ او گلشن حدید اور پولیس ٹیم کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، جب تک مقدمہ درج نہیں ہوگا مظاہرہ جاری رہے گا۔
کراچی : اسٹیل ٹاؤن کے رہائشیوں کا 7 گھنٹے بعد دھرنا ختم، نیشنل ہائی وے پر ٹریفک بحال
دھرنا ختم ہونے سے پہلے چند شہریوں کا کہنا تھا کہ 12 گھنٹوں سے ٹریفک میں پھنسے ہوئے ہیں، کھانے پینے کا سامان بھی ختم ہو گیا، بچے بھوک اور پیاس سے پریشان ہیں۔
دوسری جانب دوران احتجاج ، مقتولہ کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ وہ ہفتے کی دوپہر دو بجے سے سڑک پر موجود ہیں، کئی گھنٹوں سے سڑک بند ہے لیکن کوئی حکومتی نمائندہ ملاقات کرنے نہیں آیا، ایس ایس پی ملیر اور ڈی سی ملیر صبح 5 بجے آئے تھے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ ایس ایس پی ملیر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرنے کو تیار نہیں، جاں بحق خاتو کے بھائی نے مزید کہا کہ پولیس کی فائرنگ سے میری بہن جاں بحق ہوئی اور ایک بچی اور ایک لڑکا زخمی ہوگئے، پولیس اسٹریٹ فائرنگ کرنے کے بعد فرار ہو گئی۔
انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ فائرنگ کرنے والے 4 پولیس اہلکاروں اور ایس ایچ او کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے، تنبیہ دی کہ جب تک ان کے خلاف مقدمہ درج نہیں کیا جائے گا احتجاج جاری رہے گا۔
واضح رہے کہ 5 جولائی کو کراچی کے علاقے گلشن حدید کے قریب نیشنل ہائی وے پر کار میں سفر کرنے والی 60 سالہ خاتون گولی لگنے سے جاں بحق ہوگئیں جبکہ ان کی 19 سالہ بیٹی شدید زخمی ہوگئی تھی۔
پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ خاندان پولیس اور فرار ہونے والے مشتبہ افراد کے درمیان ’انکاؤنٹر‘ کے دوران فائرنگ کے تبادلے میں پھنس گیا اور ان کی گاڑی پر مشتبہ افراد نے گولی چلادی۔
تاہم، رشتہ داروں نے پولیس کے بیانیے پر اختلاف کیا اور پولیس پر الزام لگایا کہ پولیس نے خاندان والوں کی گاڑی کو ’ڈاکو سمجھ کر‘ ان پر سیدھی فائرنگ کردی۔
انہوں نے پولیس کے اس بیان سے اختلاف کیا کہ خاندان کراس فائر میں پھنس گیا تھا اور انہیں مشتبہ افراد نے گولی ماری۔
رشتہ دار نے یہ بھی الزام لگایا کہ پولیس اب شواہد کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
عینی شاہدین کے مطابق ملزمان کی گاڑی مقتولین کی گاڑی کے آگے جا رہی تھی، خاندان کی گاڑی کی سوشل میڈیا پر شیئر ہونے والی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اسے پیچھے سے ٹکر ماری گئی تھی۔