قاتل كون؟

جرائم کی دنیا

رپورٹ عارف اقبال

میں کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کروں؟

9 اکتوبر رات 9 بجے سپر مارکیٹ تھانے کی حدود گجر نالہ سی ایریا لیاقت آباد کے قریب ایک نامعلوم پرسرار سفری بیگ کی اطلاع پر سپر مارکیٹ پولیس فوری کارروائی کرتی ہوء جائے وقوعہ پر پہنچی اور سفری بیگ کو تحویل میں لیا پولیس سفری بیگ کو تحویل میں لیتے ہوئے اس بات کو بھی مدنظر رکھ رہی تھی کہ کہیں اس بیگ میں آتش گیر مادہ نہ ہو جو دہشتگردی کے لیئے استعمال کی جارہی ہو پولیس اس بات کو خیال رکھتے ہوئے موقع پر موجود لوگوں کو جائے وقوعہ سے دور ہٹایا تاہم پولیس نے جب کھولا تو اس میں سے ایک نوجوان لڑکی کی نعش برآمد ہوء جسے دیکھ کر دور کھڑے لوگوں میں سراسیمگی پھیل گئی پولیس نے لڑکی کی نعش تحویل میں لیتے ہوئے ضابطے کی کارروائی کے لئے عباسی اسپتال منتقل کیا موقع پر موجود پولیس افسر اے ایس آئی سہیل بیگ کے مطابق مقتولہ کی نعش ضابطے کی کارواء کے لئے عباسی اسپتال روانہ کی گء لیکن عباسی اسپتال میں اس وقت لیڈی ایم ایل او کی عدم دستیابی کی وجہ سے لڑکی کی نعش کو سرد خانے منتقل کیا گیا جبکہ ایس ایچ او سپر مارکیٹ اخلاق احمد نے بتایا کہ مقتولہ کی شناخت 20 سالہ اریشہ دختر شہزاد احمد کے نام سے ہوء جبکہ مقتولہ گلبرگ کی رہائشی تھی ایس ایچ او کے مطابق ابتدائی طور پر یہ بات سامنے آی ہے کہ مقتولہ جب ڈیڑھ سال کی تھی تو اس کے والدین کے درمیان علیحدگی ہوگء تھی جس کے بعد اریشہ کے والد اور والدہ دونوں نے شادی کرلی تھی مقتولہ کی والدہ گلبرگ اور والد کیماڑی میں اپنی موجودہ فیملی کے ساتھ رہائش پزیر ہیں انھوں نے مزید بتایا کہ مقتولہ واقعہ والے روز اپنی والدہ کے گھر سے اپنے والد سے ملنے کیماڑی گء تھی جس کے بعد اسی رات 9 بجے مزکورہ مقام سے مقتولہ کی نعش سفری بیگ سے برآمد ہوء ایس ایچ او نے مزید بتایا کہ پیر کی شب عباسی اسپتال میں لیڈی ایم ایل او کی عدم موجودگی کی وجہ سے مقتولہ کی نعش کو سرد خانے منتقل کیا گیا تھا تاہم منگل کو مقتولہ کی نعش کا پوسٹ مارٹم کیا گیا اور اجزا کو محفوظ کرلیا گیا جبکہ پوسٹ مارٹم کی حتمی رپورٹ آنے کے بعد ہی وجہ موت

معلوم ہوسکے گی ایک سوال کے جواب میں ایس ایچ او نے بتایا کہ مقتولہ کے موبائل نمبر کی مدد سے مقتولہ کے موبائل فون پر آنے اور جانے والی کال کا ڈیٹا مرتب کیا جائیگا اور اس کی آخری لوکیشن کا بھی پتہ چلایا جائیگا تاکہ انوسٹی گیشن میں مدد مل سکے پولیس جلد ہی اس اندھے قتل کا معمہ حل کرلے گی تاہم ضابطے کی کارروائی کے بعد پولیس نے مقتولہ کی نعش ورثاء کے حوالے کردیا پولیس نے واقعہ کا مقدمہ الزام نمبر 370/23 مقتولہ کی والدہ شائستہ شاہد کی مدعیت میں درج کرلیا ایف آء آر کے متن کے مطابق مقتولہ اریشہ کی والدہ نے پولیس کو بتایا کہ میں گلبرگ کی رہائشی اور ایک نجی اسپتال میں بطور نرس ملازمت کرتی ہوں مورخہ 9 اکتوبر 2023 کی صبح میں کام پر جارہی تھی تو میری بیٹی اریشہ ناز دختر شہزاد احمد جوکہ میرے پہلے شوہر شہزاد احمد سے ہے وہ ضد کرنے لگی کہ میں اپنے والد سے ملنے جاونگی میں نے اسے سمجھایا کہ گرمی زیادہ ہے تم بعد میں چلی جانا یہ کہہ کر میں اپنی ڈیوٹی پر چلی گء شام کو جب میں گھر واپس آء تو اریشہ گھر پر موجود نہیں تھی اور دروازے پر تالا لگا ہوا تھا میں انتظار کرنے لگی میں نے سوچا کہ اریشہ اپنے والد سے ملنے گء ہوء ہے وہ تھوڑی دیر میں گھر آجائے گی جب کافی دیر گزر گء اور وہ واپس نہیں آئی تو میں فکر مند ہوگء اس دوران میرے موجودہ شوہر شاہد پرویز بھی آگئے میں ان کے بھانجے کے موبائل فون سے اپنے سابقہ شوہر سے رابطہ کیا اور اریشہ کے متعلق معلوم کیا تو اس نے بتایا کہ اریشہ دوپہر کے وقت میرے پاس آئی تھی اور بوقت 4 بجے وہ مجھ سے موبائل کی ریپرنگ کے لیئے 5 ہزار روپئے لیکر گء ہے اس کے بعد مجھے اسکا علم نہیں ہے اور آج 10 اکتوبر کو تھانہ سپر مارکیٹ سے پولیس اہلکار میرے گھر آئے جنہوں نے بتایا کہ میری بیٹی اریشہ کی نعش گجر نالہ چونا ڈپو لیاقت آباد سے ملی ہے اب رپورٹ کرنے آئی ہوں میرا دعویٰ ہی کہ نامعلوم ملزم یا ملزمان نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر میری بیٹی اریشہ ناز دختر شہزاد احمد کو قتل کرنے کا ہے میں کارواء چاہتی ہو جس کے بعد پولیس نے باقاعدہ تفتیش کا آغاز کردیا جبکہ مقتولہ کے سوتیلے والد شاہد پرویز نے نمائندہ قومی اخبار کو بتایا کہ مقتولہ اریشہ جب 1 سال کی تھی تو 2004 میں اسکی والد اور والدہ کے درمیان علیحدگی ہوگئی تھی جس کے بعد 2005 میں مقتولہ کی والدہ سے میرا نکاح ہوا میں نے اریشہ کو اپنی بچی کی طرح پالا تھا اس دوران مقتولہ دس پندرہ روز بعد اپنے والد سے ملنیجایا کرتی تھی اور یہ سلسلہ سالوں تک چلتا رہا میں نے بھی بیٹی کو باپ سے ملنے سے کبھی نہیں روکا۔ اریشہ جب بڑی ہوء تو اسکے والد اسے لینے آجاتے یا مقتولہ خود ہی اپنے والد سے ملنے چلی جایا کرتی تھی اور مقررہ وقت پر وہ خود ہی گھر آجاتی یا اس کے والد اسے چھوڑ کر جایا کرتے تھے کبھی کبھار دیر ہوجانے پر میں گھر کے باہر کھڑا اریشہ کا انتظار کرہا ہوتا تو اریشہ اپنے والد کے ساتھ آرہی ہوتی تھی جس کی وجہ سے میری بھی اس کے والد سے ملاقات ہوجاتی تھی اس طرح کء بار ہماری اچھی ماحول میں ملاقاتیں ہوئیں تھی اریشہ نے ابھی کالج میں بھی داخلہ لیا تھا جہاں وہ بی اے پارٹ ون کی طالبہ تھی واقعہ سے متعلق مقتولہ کے سوتیلے والد شاہد نے بتایا کہ پولیس قتل میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کے لیئے بھرپور کوشش کررہی ہے اور امید ہے کہ جلد یا بدیر پولیس اصل قاتل کو گرفتار کرلے گی جبکہ سپر مارکیٹ تھانے کے ایس آء او طارق نے نمائندہ قومی اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس نے واقعہ کے فوری بعد ہی قاتلوں کی گرفتاری کے لئے کارروائی شروع کردی تھی اور اب تک کی تفتیش میں مقتولہ اریشہ کی سوتیلی ماں اور باپ پر جاتا ہے نعش ملنے کے بعد مقتولہ کے پاس سے کوء پیسے یا فون نہیں ملا تھا واقعہ سے متعلق معلومات کے لیئے پولیس نے مقتولہ کے والد سے رابطہ کیا تھا اور اسے تھانے بلوایا تھا مقتولہ کے والد شہزاد واقعہ کے دوسرے روز آء او کی غیر موجودگی میں تھانے آیا اور ایک موبائل فون یہ کہہ کر جمع کروایا کہ یہ فون مقتولہ کا ہے جس کے بعد وہ کسی ضروری کام کا بہانہ بناکر تھانے سے چلاگیا جب پولیس نے مقتولہ کا موبائل فون چیک کیا تو وہ بلکل بلینک تھا اور سارا فون کا سارا ڈیٹا غائب تھا جس کے بعد تفتیشی افسر نے شہزاد سے متعدد بار رابطہ کیا اور اسے تھانے آنے کو کہا لیکن اس کے بعد شہزاد کا موبائل فون آف ہوگیا رابطہ منقطع ہونے پر پولیس شہزاد کے گھر گء لیکن اس وقت اس کے گھر تالا لگا ہوا تھا جس کے بعد پولیس پارٹی نے کئی بار مقتولہ کے والد شہزاد کے گھر چھاپہ مارا لیکن اب تک اس کے گھر پر تالا لگا ہے اور شہزاد اور اس کی دوسری بیوی فرار ہے پولیس نے ان لوگوں کے بارے میں پڑوسیوں سے بھی پوچھ گچھ کی لیکن ان لوگوں کے بارے میں پڑوسیوں کو بھی کوئی پتہ نہیں ہے شہزاد اور اس کی اہلیہ کے اچانک غائب ہونے سے پولیس کا شک یقین میں بدلتا جارہا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے جبکہ پولیس تفتیش کا دائرہ مزید وسیع کرکے تفتیش کے دیگر پہلو پر بھی غور کررہی ہے ایس آئے او سپر مارکیٹ نے مزید بتایا کہ تفتیش کے دوران ٹیم نے چونا ڈپو سی ایریا کے قریبی جگہوں سے مقتولہ کی نعش پھینکنے کی اہم ترین سی سی ٹی وی فوٹیج بھی حاصل کی جس میں دیکھا گیا ہے کہ مقتولہ کی سفری بیگ میں بند نعش رکشہ میں رکھ کر لایا گیا اور پھر مذکورہ مقام پر پھینکا گیا فوٹیج میں مذید دیکھا گیا کہ رکشہ کے اندر نعش کے ساتھ ایک خاتون بیٹھی ہے جبکہ اگلی نشست میں ڈرائیور کے ساتھ ایک کم عمر لڑکا بیٹھا ہوا ہے جبکہ انوسٹی گیشن ذرائع کے مطابق فوٹیج میں رکشے کو مین روڈ سے مخالف سمت پر آتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے جبکہ ڈرائیور کے ساتھ ایک لڑکا اور پیچھے پسنجر سیٹ پر ایک خاتون بھی دکھاء دے رہی ہے رکشہ ڈرائیور نعش کو بیگ میں لے کر ناظم آباد چورنگی سے لیاقت آباد چونا ڈپو کی طرف آیا اور پھر سفری بیگ میں موجود اریشہ کی نعش گجر نالے کے قریب پھینک کر فرار ہوگیا ایک سوال کے جواب میں ایس آئی او نے بتایا کہ ملزمان نے مقتولہ کی نعش رات کو پھینکی تھی اور جس جگہ رکشہ ڈرائیور نے مقتولہ کی نعش پھینکی اس جگہہ پر کافی اندھیرا تھا جس کی وجہ سے رکشے کا رجسٹریشن نمبر واضع نظر نہیں ایا جس کی وجہ سے پولیس اب دیگر رستوں کی بھی سی سی فوٹیج حاصل کررہی ہے اور یقین ہے بہت جلد پولیس کو ایسی فوٹیج ہاتھ لگے گی جس سے سب کچھ واضع ہوجائیگا اور پھر ملزمان بھی قانون کی گرفت میں ہونگے اور پولیس کی بھرپور کوشش ہے کہ مقتولہ اریشہ کے لواحقین کو انصاف فراہم کیا جاسکے۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*