ننھی کلی مسل دی

مدرسے گئی غائب ہوگئی تین دن بعد نعش کچرا کنڈی سے ملی


مسلم آباد کے رہائشی پھل فروش مقبول احمد کی بچی لاپتہ ہوئی اس نے پولیس سے مدد مانگی پولیس نے مدد نہ کی خود تلاش کیا تین دن زیر تعمیر مکان کے کچرہ کنڈی سےسرخ لباس میں ملبوس 6 سالہ بچی کی نعش ملی نعش کے جسم پر جا بجا تشدد کے نشان تھے

رپورٹ عارف اقبال

18 اکتوبر 2022 قائد آباد کے علاقے مسلم آباد کے ایک زیر تعمیر مکان کے کچرہ کنڈی سے سرخ لباس میں ملبوس 6 سالہ بچی کی نعش ملی نعش کے جسم پر جا بجا تشدد کے نشان تھے نعش ملنے کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیل گءجبکہ علاقے میں خوف وہراس اور سوگ کی بھی کیفیت طاری ہوگءاس اطلاع پر قائد آباد پولیس کارواءکرتی ہوءجائے وقوعہ پر پہنچی اور نعش کو تحویل میں لے کر قانونی کارواءکے لیِے جناح اسپتال منتقل کیا جہاں لیڈی ایم ایل او ڈاکٹر بختاور شاہ نے پوسٹ مارٹم رپورٹ نمبر 479/2022 بچی کے ساتھ درندگی اور تشدد سے موت واقع ہونے کے تصدیق کی تاہم پولیس نے تمام قانونی کارواءکے بعد 6 سالہ منیبہ دختر مقبول احمد کی نعش برائے تدفین ورثاء کے سپرد کردی پولیس کے مطابق 6 سالہ مقتولہ منیبہ قائد آباد تھانے کی حدود نالے والا روڈ بلال کالونی لانڈھی کی رہائشی اور گزشتہ دو دنوں سے لاپتہ تھی تاہم 18 اکتوبر کی صبح بچی کی تشدد زدہ نعش مسلم آباد کالونی مکی مسجد کے قریب خالی پلاٹ جسے علاقے کے رہائشی کچرہ کنڈی کے طور پر استعمال کرتے ہیں وہاں سے ملی اور پولیس نے قانونی کاروائی ے بعد بچی کی نعش ورثائ کے حوالے کردی تاہم 6 سالہ منیبہ کی نعش علاقے میں پہنچنے پر کہرام مچ گیا

علاقہ مکیں مشتعل ہوکر سڑکوں پر نکل آئے اور لانڈھی اسپتال چورنگی کے قریب احتجاجی مظاہرہ کرتے ہوئے رکاوٹیں کھڑی کردی جس کے نتیجے میں اس شاہراہ اور اسپتال چورنگی کے اطراف شدید ٹریفک جام ہوگءاحتجاج کے دوران مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ تین روز قبل 6 سالہ منیبہ لاپتہ ہوءاور کچھ گھنٹے بعد منیبہ کے ورثائ گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے قائد آباد تھانے گئے لیکن اس وقت ڈیوٹی پر موجود پولیس افسر و اہلکار نے ناہی ہماری بات سنی اور ناہی بچی کی گمشدگی کا مقدمہ درج کیا صرف روزنامچے میں انٹری ڈال کرخاموشی سے بیٹھ گئے اور تماشہ دیکھتی رہے پولیس نے ہماری کوءمدد نہیں کی بچی کی گمشدگی کے بعد اہلخانہ اور محلے کے لوگ ہی مسلسل تین دنوں تک بچی کو ڈھونڈتے رہے اور آخر میں ہمیں بچی کی نعش ملی اگر پولیس پہلے دن ہی بچی کی بازیابی کے لیئے کوششیں کرتی اور علاقے میں کوءسرچ آپریشن شروع کرتی تو آج 6 سالہ منیبہ کی تشددزدہ نعش نہیں ملتی اس موقع پر مقتولہ منیبہ کے والد مقبول احمد نے نمائندہ قومی اخبار کو بتایا کہ میں پھل فروش ہوں میری 6 بیٹیاں ہیں اور منیبہ بیٹیوں میں تیسرے نمبر پر تھی مقتولہ کے رہتے ہوئے مجھے اس بات کی کوءفکر نہیں تھی کہ میرا کوءبیٹا نہیں کیونکہ منیبہ بیٹوں سے بڑھ کر میری مدد کرتی تھی گھر باہر کے سارے کام منیبہ ہی کرتی تھی مقتولہ گھر اور میرے درمیان پیغام رساں بھی تھی گھر کا کوءکام ہو یا گھر میں کوءمہمان آجائے یا گھر سے میرے لیئے کوءچیز لانی ہو اور اس جیسے سارے کام منیبہ ہی کرتی تھی مزید یہ کہ اس واقعہ سے قبل 15 اکتوبر کو میری والدہ اور بڑی بہن کچھ دنوں کے لیئے میرے چھوٹے بھاءقبول احمد کے گھر گئں اور منیبہ کی عادت تھی کہ وہ دن بھر کہیں بھی رہے رات کو سونے کے لیئے میری والدہ اور بڑی بہن کے پاس ہی آجاتی تھی اور اس دن بھی ایسا ہی ہوا جب میری والدہ اور بہن میرے چھوٹے بھاءکے یہاں گئیں تو منیبہ دادی کے ساتھ نہیں گءلیکن جب رات ہوءتو منیبہ دادی اور پھوپھو کے ساتھ سونے کے لیئے میرےچھوٹے بھاءقبول کے گھر چلی گءجہاں اس نے دادی کے ساتھ رات گزاری اور پھر صبح وہ گھر واپس نہیں آءبلکہ چاچو کے گھر دادی کے ہی پاس ہی رہی دوپہر کے وقت بھاءکے بچے قران مجید پڑھنے مدرسے جاتے ہیں جس پر منیبہ نے بھی کہا کہ میں بھی انکے ساتھ مدرسے جاونگی منیبہ کے اس بات کا کسی نے نوٹس نہیں لیا اور تھوڑی دیر بعد بھاءکے بچے مدرسے چلے گئے اب گھر میں کوءبچہ نہیں سب نے یہی سمجھا کہ منیبہ بھی مدرسے جانے والے بچوں کے ساتھ ہی گءہے اور وہ مطمئن ہوکر اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے لیکن جب مدرسے جانے والے سارے بچے گھر واپس آگئے اور ان میں منیبہ نہیں نظر آی تو میری والدہ نے بچوں سے منیبہ کے بارے میں پوچھا کہ منیبہ بھی تم لوگوں کے ساتھ ہی مدرسہ گئی تو ابھی کیوں واپس نہیں آی جس کے جواب میں بچوں نے دادی کو بتایا کہ منیبہ تو ہمارے ساتھ مدرسہ گءہی نہیں گھر والوں کو اس بچے کی بات کا یقین نہیں ہوا تو ان لوگوں نے باری باری تمام بچوں سے منیبہ کے بارے میں پوچھا لیکن مدرسے جانے والے بچوں کا ایک ہی جواب تھا کہ منیبہ ہمارے ساتھ مدرسے نہیں گءبچوں کی زبانی جب میری والدہ اور بڑی بہن کو یہ معلوم ہوا کہ منیبہ ان لوگوں ساتھ مدرسے نہیں گءتو ان لوگوں پر گھبراہٹ طاری ہونے لگی پہلے پہل تو انھوں نے اپنی تئیں کوششیں کیں اور ہمسایوں میں جاکر منیبہ کے بارے میں معلوم کیا انکا خیال تھا کہ منیبہ بچی ہے اور پاس پڑوس میں کسی بچے بچی کے ساتھ کھیل کود رہی ہوگی لیکن جب ان کو ہمسایوں سے بھی منیبہ کے آنے کا جواب انکار میں ملا تو وہ سب پریشان ہوئے جس کے بعد انھوں نے ہمیں اطلاع دی اور پھر تھوڑی دیر میں ہی منیبہ کی گمشدگی کی جبر علاقے میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گءاس دوران علاقے کے تمام لوگوں نے ہمارا ساتھ دیا اور منیبہ کو تلاش کرنے میں کوءکسر نہیں چھوڑا لیکن منیبہ کہیں نہیں ملی آخر تھک ہار کر مقتولہ کی بازیابی کے لیئے پولیس سے مدد لینے کا سوچا اور منیبہ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروانے ہم قائد آباد تھانے پہنچے ہمارا خیال تھا کہ پولیس واقعہ کا مقدمہ درج کرکے فوری کارواءشروع کرتے ہوئے سرچ آپریشن شروع کریگی اور منیبہ کہیں نہ کہیں سے بازیاب ہوجائے گی لیکن تھانے میں موجود افسر واہلکاروں نے ہماری کوءبات نہیں سنی اور واقعہ کا باقاعدہ مقدمہ درج کرنے کے بجائے صرف روزنامچے میں انٹری ڈال کر ہمیں تسلی دے کر تھانے سے واپس بھیج دیا جس کے بعد ہم مسلسل دو دن منیبہ کو تلاش کرتے رہےرلیکن منیبہ کا کوءپتہ نہیں چلا اس دوران پولیس نے ہماری کوءمدد نہیں آخر تیسرے روز صبح دس بجے واقعہ کا باقاعدہ مقدمہ درج کروانے میں اپنے چند عزیزوں کے ساتھ قائد آباد تھانے پہنچا ابھی ہم تھانے کے اندر جاہی رہے تھے کہ میرے موبائل پر کال آءاسکرین پر نمبر دیکھا تو دوسری طرف میرا چھوٹا بھاءقبول تھا اس نے ہمیں وہ اطلاع دی جس کو سن کر میرے پاوں کے نیچے سے زمین نکل گءکیونکہ اس نے مجھے بتایا تھا کہ منیبہ کی تشددزدہ نعش مسلم آباد کے ایک زیر تعمیر مکان کی کچرہ کنڈی میں پڑی ہے اس خبر کے بعد میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاگیا لیکن پھر میں اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے اس مقام پر پہنچا جہاں کچرے کے پاس منیبہ کی نعش بے گوروکفن پڑی تھی مقتولہ کے والد پولیس کے اعلیٰ افسران سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ کے فوری بعد جب ہم مقدمہ درج کروانے قائد آباد تھانے گئے تو پولیس ہماری شکایت پر لببیک کہتی ہوءمقدمہ درج کرتی اور فوری سرچ آپریشن شروع کرتی تو منیبہ زندہ سلامت بازیاب ہوتی اور ملزمان بھی گرفتار ہوتے لیکن پولیس نے ہماری ایک نا سنیں اور روائتی سستی کا مظاہرہ کرتی رہی ان تین دنوں میں جب ہم دیوانوں کی طرح منیبہ کو ڈھونڈتے رہے جب بھی پولیس ایک بار بھی ہماری داد رسی کو نہیں آءایک سوال کے جواب میں مقتولہ کے والد نے نمائندہ قومی اخبار کو بتایا کہ منیبہ کا قاتل کوءدور سے نہیں آیا ہوگا وہ علاقے محلے کا ہی کوءشخص ہوگا جسے وہ جانتی ہوگی

کیونکہ منیبہ سمجھدار بچی تھی وہ کسی انجان کے ساتھ نہیں جاسکتی اور ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ منیبہ کے کوءانجان شخص زور زبردستی کر کے اسے اپنے ساتھ لے جاتا کیونکہ میں اسکا باپ ہوں اور مجھے معلوم ہے کہ اس کے ساتھ زور زبردستی کرنا گویا اونٹ کو رکشے میں بیٹھانے کے مترادف ہوتا زبردستی وہ کسی کے قابو میں نہیں آسکتی تھی اب جب ملزم گرفتار ہوگا تو مجھے یقین ہے کہ وہ ہمارا دور پرے کا کوءجاننے والا ہی ہوگا جسے منیبہ بھی جانتی ہوگی جبکہ احتجاجی مظاہرے کے دوران مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ انتہاءغیر زمہ داری کا مظاہرہ کرنے والے قائدآباد تھانے کے ایس ایچ او اور تھانے کے دیگر غیر زمہ داری میں ملوث اہلکاروں کو فوری معطل کیا جائے اور زمہ دار پولیس افسر واہلکاروں کو تعینات کرکے ملزمان کو گرفتار کرکے انہیں قرار واقعی سزا دلواءجائے احتجاج کی اطلاع ملنے پر ایس ایس پی انوسٹی گیشن ملیر عرب مہر مظاہرین کے پاس پہنچے اور واقعہ کی مکمل معلومات لیں جس پر احتجاج میں شامل مظاہرین نے تمام واقعہ ایس ایس پی کو بتایا اور غیر زمہ داری کا مظاہرہ کرنے والے پولیس افسر و اہلکاروں کی فوری معطلی کا مطالبہ کیا حقیقت واضع ہونے پر ایس ایس پی انوسٹیگیشن ملیر عرب مہر نے فوری ایس ایس پی انوسٹیگیشن ملیر عرفان بہادر سے رابطہ کیا اور اب تک کی تفتیش اور قائد آباد تھانے کے افسر و اہلکاروں کے خلاف اطلاع کے متعلق بتاتے ہوئے انکے خلاف ایکشن لینے کی سفارش کی جس پر ایس ایس پی ملیر عرفان بہادر نے فوری نوٹس لیتے ہوئے ایس ایچ او قائد آباد امین کھوسہ ہیڈ محرر اور اہلکاروں سمیت چار کو فوری معطل کرنے اور مقدمے کی ایف آی آر درج کرنے کا حکم دیا جبکہ واقعہ کی شفاف تفتیش اور لواحقین کو ہر ممکن مدد کرنے کا بھی حکم دیا جس کے بعد مظاہرین نے اپنا احتجاج ختم کرتے ہوئے مقامی قبرستان میں 6 سالہ منیبہ دختر مقبول احمد کو سپرد خاک کردیا گیا بعد از تدفین پولیس نے واقعہ کا مقدمہ الزام نمبر 644/2022 مقتولہ کے والد کی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کرکے کارواءشروع کردی اور علاقے میں سرچ آپریشن کے دوران 15 سے زائد مشتبہ افراد کو حراست میں کر تفتش شروع کردی جبکہ انکی ڈی این اے کے نمونے لیارٹری بھجوادی گءپولیس کے مطابق ڈی این اے کی رپورٹ آنے کے بعد ہی ملزمان کی گرفتاری اور تفتیش کے مراحل آگے بڑھینگے جبکہ علاقہ زرائع کے مطابق مقدمہ درج ہونے کے بعد پولیس روزآنہ کی بنیاد پر علاقے میں سرچ آپریشن اور چھاپہ مار کاروائی کررہی ہے اور پولیس اس دوران کچھ مشتبہ افراد کو حراست میں رکھتی ہے جنکا ڈی این اے ٹیسٹ بھی لیا جاتا ہے لیکن تادم تحریر 6 سالہ منیبہ کا قاتل ابھی پولیس کی پہنچ سے دور ہے اور باقائدہ کوءگرفتاری نہیں ہوءجبکہ علاقہ مکینوں نے پولیس کی ابھی تک کی کارگردگی کو دیکھتے ہوئے ملزمان کی عدم گرفتاری پر آج بعد نماز جمعہ داو?د چورنگی پر پولیس کی کارگزاری اور ملزمان کی عدم گرفتاری پر بھرپور احتجاج کا اعلان کیا ہے۔۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*