کراچی میں اسٹریٹ کرائم پر خصوصی رپورٹ

رپورٹ : بلال شاہ

موت کا کھیل 18 زندگیاں نگل گیا

شہر کراچی سفاک قاتلوں کی جنت بن گیا ہے، نئے سال 2023 کے پہلے مہینے، جنوری میں 18 شہری ڈکیتی کے دوران سفاکی سے قتل کر دیے گئے گزشتہ چند مہینوں سے شہر کراچی میں اسٹریٹ کریمنلز اور ڈکیت وارداتوں کے دوران نہایت سفاکی سے ایک موبائل کے لیے بھی شہریوں کو گولیاں مار کر قتل کر دیتے ہیں، اس سلسلے میں کئی سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی سامنے آ کر شہریوں کے خوف و ہراس میں اضافہ کر چکی ہیں، لیکن کراچی پولیس ایسا ظاہر کر رہی ہے جیسے وہ گولیاں مارنے والے لٹیروں کے سامنے واقعی بے بس ہو چکی ہو۔ کراچی پولیس میڈیا سیل کی تازہ رپورٹ کے مطابق کراچی میں رواں سال کا پہلا مہینہ کئی گھروں کو ماتم کدہ بنا گیا ہے، ایک ماہ کے دوران شہر کے مختلف علاقوں میں ایک خاتون ایک خواجہ سرا اور سیکورٹی ادارے کے ایک اہل کار سمیت 14 افراد کو ڈکیتی کے دوران مزاحمت کرنے پر گولیاں مار کر قتل اور 55 سے زائد کو زخمی کیا گیا رپورٹ کے مطابق 2 سے 30 جنوری تک 14 شہریوں کو ڈکیتی کے دوران قتل کیا گیا ہے، 31 روز کے دوران 55 سے زائد شہری ڈکیتی مزاحمت پر زخمی ہوئے، یکم جنوری سے 31 تک 2 بوری بند نعشیں اور 3 نامعلوم افراد کی نعشیں ملیں، گلستان جوہر کی جھاڑیوں سے ایک خواجہ سرا کی تشدد زدہ نعش بھی ملی شریف آباد میں میاں بیوی اور قائد آباد میں خاتون کی نعش گھر سے ملی، شادی میں اندھادھند فائرنگ سے 2 افراد قتل اور 3 زخمی ہوئے، جنوری میں 9 افراد نے خود کشی کی، جب کہ 2 کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی، ذاتی یا گھریلو جھگڑے میں 9 افراد قتل اور 31 خواتین و مرد زخمی ہوئے، سال نو کے علاوہ 30 روز میں اندھی گولی سے بھی 17 افراد زخمی ہوئے۔ ڈکیتی مزاحمت پر رواں سال کا پہلا قتل عوامی کالونی تھانے کی حدود میں ہوا تھا،

پہلا قتل 2 جنوری کو شاہد نامی شہری کا ہوا تھا، دوسرا قتل ثنا طارق نامی خاتون کا ہوا، تیسرا قتل عبدالرزاق نامی شہری، چوتھا نور رحمان، پانچواں نوجوان سلمان کا تھا۔ رپورٹ کے مطابق چھٹا قتل عبدالوارث کا ہوا، ساتواں قتل عزیز نور محمد کا، آٹھواں نیوی اہلکار شان کا، نواں مہتاب، دسواں قتل نوجوان نعیم، گیارہواں قتل واجد کا، بارہواں قتل وقاص نیازی، تیرہواں عبدالرزاق خاصخیلی اور چودہواں قتل 30 جنوری کو چڑیا گھر کے گیٹ کے سامنے عبدالرزاق نامی شہری کا ہوا پولیس ڈکیتی مزاحمت پر فائرنگ کرنے والے 3 کیسز کو ٹریس کرنے اور ملزمان پکڑنے میں کامیاب رہی جب کہ قتل سمیت دیگر درجنوں کیسز اب بھی التوا میں ہیں فروری کا مہینہ شروع ہوتے ہی ابتدائی تین دن میں چار افراد جاں بحق ہوگئے ہیں دو فروری کو سرجانی ٹاﺅن میں ڈکیتی کی واردات کے دوران مزاحمت پر ڈاکوﺅں کی فائرنگ سے نوجوان شرجیل ہلاک ہوگیا جاں بحق ہونے والا نوجوان پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا اور گھر کا واحد کفیل تھا۔تفصیلات کے مطابق بدھ کو سرجانی ٹاﺅن لیاری 36 ٹینکی اسٹاپ کے قریب ایل پی جی سلنڈر کی دکان میں ڈکیتی کی واردات کے دوران مزاحمت پر ڈاکوﺅں نے فائرنگ کر کے 34 سالہ عبدالعظیم ولد عبدالکلیم اور 32 سالہ شرجیل ولد شبیر کو زخمی کردیا تھا جنہیں فوری طور پر عباسی شہید اسپتال منتقل کردیا گیا بعدازاں فائرنگ سے زخمی ہونے والے شرجیل کو تشویشناک حالت میں جناح اسپتال منتقل کیا گیا تھا جہاں زخمی شرجیل جمعرات کی صبح دوران علاج دم توڑ گیا، مقتول نوجوان سرجانی ٹاﺅن لیاری 36 اے کا رہائشی اور پانچ بہن بھائیوں میں سب سے بڑا اور گھر کا واحد کفیل تھا، مقتول نوجوان کی نماز جنازہ بعد نماز عصر سرجانی ٹاﺅن میں گھر کے قریب ادا کی گئی۔ مقتول کے رشتہ داروں اور محلے داروں نے بتایا کہ مقتول شرجیل ایم پی جی سلنڈرکی دکان میں کام کرتا تھا بدھ کو نامعلوم مسلح ملزمان دکان میں ڈکیتی کرکے فرار ہو رہے تھے جس پر شرجیل اور دیگر دکاندار ڈاکوﺅں کو پکڑنے کے لیے ان کے پیچھے دوڑے اور کچھ فاصلے پر شرجیل نے ایک ڈاکو کو پکڑنے کی کوشش کی اس دوران ایک ڈاکو سے پستول بھی گر گیا جس پر ڈاکو نے پستول اٹھا کر فائرنگ کردی جس کے نتیجے میں شرجیل اوراسٹیٹ ایجنٹ عبدالعظیم زخمی ہو گیا۔ اہلخانہ اورعلاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ ڈکیتوں نے جینا مشکل کردیا ہے اور ہر چند روز کے بعد نوجوانوں کی نعشیں اٹھا اٹھا کرتھک گئے ہیں، پولیس شہریوں کی جان ومال کا تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے اگر پولیس شہریوں کوتحفظ فراہم نہیں کر سکتی تو شہریوں کواپنی حفاظت کرنے کااختیار دے دیں تاکہ شہری خود مسلح ڈاکوﺅں سے مقابلہ کر سکیںکراچی میں اسٹریٹ کرائم کی روک تھام کے لیے شاہین اسکواڈ تشکیل دیا گیا اور ان جرائم کی تحقیقات سی ٹی ڈی اور سی آئی اے پولیس کو دی گئی ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ گزشتہ سال 3600 ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔ وزیر اعلیٰ ہاو¿س ان جرائم کو مانیٹر کر رہا ہے لیکن ان کوششوں کے باوجودا سٹریٹ کرائم اس شہر کی رونقوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے۔

سٹیزن پولیس لیزان کمیٹی کے مطابق گزشتہ سال کراچی میں اسٹریٹ کرائم کے 85948 واقعات ہوئے۔اداکار عنایت خان کہتے ہیں کہ انہوں نے ڈرامہ انڈسٹری میں بڑی جدوجہد سے جگہ بنائی ہے، انہیں زندگی کی قدر ہے اور ابھی انہیں سٹار بننا ہے لہٰذا وہ ”رسک نہیں اٹھاتے وہ کہتے ہیں“ہم تو کہاوت سنتے ہیں کہ آپ کمائیں گے تو اور آجائے گا لیکن سچ یہ ہے کہ شادی شدہ ہوں، میرا بیٹا نو مہینے کا ہے اور میں اس صورتحال میں مزاحمت تو نہیں کر سکتا ناں، اگر خدانخواستہ مجھے گولی لگ جاتی تو ہنستا کھیلتا ہوا میرا جو گھر ہے وہ ختم ہوجاتامقدر کا ستارہ ڈرامے کے ہیرو عنایت خان کو فٹنس کے لیے وقت رات کو ہی ملتا ہے اس لیے انہیں اسی وقت جم جانا پڑتا ہے وہ بتاتے ہیں کہ ڈیفنس میں وہ جس جم جاتے ہیں وہ رات ساڑھے گیارہ بجے بند ہوجاتا ہے لہٰذا وہ اختر کالونی چلے جاتے ہیں جہاں بارہ بجے تک ایک جم کھلا رہتا ہے۔ ’اس روز بارہ بج چکے تھے۔ میرا انٹرنیٹ پیکیج ختم ہوگیا تو میں نے قریبی دکان سے ری پیکیج کروایا اور ابھی میں سیل فون کودوبارہ اسٹارٹ کر رہا تھا کہ جیسے ہی اس کی لائٹ آن ہوئی تو سامنے سے بائیک پر دو نوجوان گزرے۔‘عنایت کہتے ہیں ’میں نے سوچا کہ عام طور پر جیسے بائیکس گزرتی ہیں یہ بھی گزر کر چلے جائیں گے وہ بتاتے ہیں کہ ’انہوں نے واپس جا کر یوٹرن لیا اور اس وقت میرے ساتھ ایک مزدوربھی موجود تھا، ہم دونوں کو روکا اور موبائل مانگا تو میں نے کہا کہ اتنے پیار سے تو ہم نہیں دے سکتے کچھ دکھاو¿ گے تو ہم دیں گے’ ’دیکھا تو جو بائیک چلا رہا تھا اس کے پاس گن تھی اور سامنے تانی ہوئی تھی۔میں نے کہا چلو ضرورت مند ہیں کیا کرسکتے ہیں“ لے جاو¿، جان سے بڑھ کر تو نہیں ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ چوتھی بار میرے ساتھ یہ واقعہ ہوا تھا۔ گلبرگ کے رہائشی ‘زاہد اصغر بتاتے ہیں کہ صبح 11 بجے وہ سوئے ہوئے تھے۔ ان کے بھائی آفس جا چکے تھے کہ فائرنگ کی آواز پر وہ ہڑبڑا کر اٹھے اور لاونج میں گئے ٹو پی کیپ پہنے ہوئے نوجوان ان کے گھر کے اندر سے فائرنگ کر رہے تھے جبکہ باہر پولیس کی نفری تھی۔وہ بتاتے ہیں ’ڈاکو ہمارے گھر کے اندر ہی تھے اور گھر میں خواتین اور بچے بھی موجود تھے۔ ڈاکوو¿ں نے مجھے اور میری بیگم کو یرغمال بنا لیا اور ہم پر پستول تان لی ’وہ ہمیں باہر گلی کے کونے تک لے کر گئے اور پولیس سے گاڑی طلب کی۔ اسی دوران جس ڈاکو نے میری بیوی پر پستول تان کر رکھی تھی اس پر ایک کانسٹیبل نے نشانہ داغہ اور وہ گر گیا جس کے بعد مجھے چھوڑ کر بھاگے جنہیں پولیس نے گھیر کر مار ڈالا پاکستان کے صنعتی و تجارتی مرکز کراچی کی شناخت روشنیاں تھیں لیکن اب شہریوں میں سورج غروب ہونے کے ساتھ عدم تحفظ کا احساس بڑھ جاتا ہے گذشتہ سال 110 شہری ڈاکوﺅں سے مزاحمت کرتے ہوئے مارے گئے اسی لیے زیادہ تر شہری مزاحمت سے احتیاط برتتے ہیں ایڈیشنل آئی جی کراچی جاوید عالم اوڈھو نے کہا ہے کہ شہر میں اسٹریٹ کرائمز کی روک تھام ماڈرن پولیسنگ سیف سٹی منصوبے کے بغیر ممکن نہیں ہے، انہوں نے کہا کہ مختلف برادریوں کی جانب سے سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کاسلسلہ جاری ہے ایڈیشنل آئی جی کراچی نے کہا کہ 3،2سال میں سیف سٹی پروجیکٹ کی آدھی ضرورت پوری ہوجائے گی، سی سی ٹی وی نیٹ ورک کی افادیت بہت ہے، سیف سٹی پروجیکٹ کی کمی کمیونٹی کی مدد سے پوری ہورہی ہے۔ اے آئی جی کراچی کا کہنا تھا کہ سی سی ٹی وی کی مدد سے ملزمان پکڑے جارہے ہیں، ہمیں اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے، مزید نفری کی فوری ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایک کیمرہ 25ا ہلکاروں کی کمی کو پورا کرتا ہے، کیمرہ سوتا نہیں ہے، کوتاہی نہیں کرتا، لاہور،اسلام آباد میں سیف سیٹی میں2میگا پکسل کیمرے ہیں، کراچی میں کمیونٹی 4میگا پکسل کیمرے لگارہی ہے کمیونٹی کو ڈالر کی وجہ سے کیمرے خریدنے میں مشکلات کا سامنا ہے، کراچی کو کلین اور گرین کرنے کا بیڑا بھی کمیونٹی نے اٹھایا ہے۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*