دواؤں کی شدید قلت کا خطرہ

خام مال کی عدم دستیابی :مزید 3 فارماسیوٹیکل کمپنیز کی پاکستان میں کاروبار بند کرنے کی تیاریاں

تین ملٹی نیشنل کمپنیوں کی تیاری کے ساتھ 15 کے لگ بھگ مقامی ادویہ ساز کمپنیوں کا بھی کاروبار ترک کرنے پر غورشروع

بورڈ نے 60 سے زائد ادویہ ساز کمپنیوں کی گزارشات نظر انداز کرتے ہوئے قیمتوں میں اضافہ کی درخواست مسترد کردی

ادویہ سازی کی صنعت کو درپیش مشکلات اور ملٹی نیشنل اور ملکی کمپنیوں کی بندش سے ادویات کی قلت شدت اختیار کرنے کا خدشہ

کراچی( بزنس ڈیسک) خام مال کی عدم دستیابی، لاگت میں اضافہ اور قیمتوں پر نظر ثانی نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ادویات بنانے والی تین ملٹی نیشنل کمپنیوں نے کاروبار بند کرنے کی تیاریاں شروع کردی ہیں جبکہ 15کے لگ بھگ مقامی ادویہ ساز کمپنیاں بھی کاروبار ترک کرنے پر غور کررہی ہیں جس کے نتیجے میں ملک بھر میں دواو¿ں کی شدید قلت کا خطرہ ہے۔فارما انڈسٹری کے ذرائع نے بتایا کہ طویل عدالتی چارہ جوئی کے بعد قیمتوں پر نظرثانی کے فیصلے کے باوجود پالیسی بورڈ نے ادویات بنانے والی 60سے زائد کمپنیوں کی گزارشات نظر انداز کرتے ہوئے قیمتوں میں اضافہ کی درخواست مسترد کردی جس کے لیے پاکستان فارما سیوٹیکلز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے خط کو بنیاد بنایا گیا۔ذرائع نے بتایا کہ ملٹی نیشنل اور مقامی 60سے زائد کمپنیوں نے پالیسی بورڈ کو لاگت میں اضافہ کے عوامل بالخصوص روپے کی قدر میں کمی اور خام مال مہنگا ہونے سمیت توانائی اور ترسیل کی لاگت کے ادویہ سازی پر اثرات سے آگاہ کرتے ہوئے 38فیصد تک اضافہ کی درخواست کی تھی۔ذرائع نے بتایا کہ ملک میں ادویات بنانے والی 50سے کے لگ بھگ کمپنیوں نے اس اقدام پر پالیسی بورڈ کے یکطرفہ فیصلے کے خلاف توہین عدالت کی درخواستیں دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے لیے نوٹسز کی تعمیل رواں ہفتہ ہونے کا امکان ہے۔ادویہ سازی کی صنعت کو درپیش مشکلات اور ملٹی نیشنل اور ملکی کمپنیوں کی بندش سے ملک میں ادویات کی قلت شدت اختیار کرنے کا خدشہ ہے۔ انڈسٹری ذرائع کا کہنا ہے کہ ملک میں ادویات کی قیمتوں کی سفارشات کابینہ کے زیر غور لائی جاتی ہیں اورکوئی وجہ بتائے بغیر مسترد کردی جاتی ہیں حالانکہ وفاقی حکومت اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کی آئینی ذمہ داری ہے کہ ادویات کی قیمتوں کو صارفین کے ساتھ انڈسٹری کے لیے بھی مناسب بنایا جائے۔ذرائع نے بتایا کہ حالیہ معاشی بحران میں ادویہ سازی کی صنعت کی بنیادی اور ساختی خامیاں کھل کر سامنے آگئی ہیں پاکستان میں ادویہ ساز کمپنیاں بیرون ملک سے خام مال درآمد کرکے اس کو سیرپ، ٹیبلٹ یا کیپسول کی شکل دیتی ہیں اور مقامی سطح پر ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کا فقدان ہے حالانکہ ادویہ ساز کمپنیاں اپنے ٹرن اوور کا 5فیصد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے پاس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کی مد میں جمع کراتی ہیں تاہم اس خطیر فنڈ کے باوجود مقامی سطح پر خام مال کی دستیابی اور ادویہ سازی کی صنعت کو تحقیق پر مبنی پائیدار بنیادوں پر استوار نہ کیا جاسکا۔خیال رہے کہ نومبر 2022 میں ذیابیطس کے علاج کے لیے استعمال ہونے والی ہمالوگ میڈیکل انسولین بنانے والی کمپنی ایلی للی پہلے ہی کاروبار بند کرنے کا فیصلہ کرچکی ہے۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*