بے قابو ڈاکو 15 شہریوں کی جان لی

رپورٹ عارف اقبال

شہر میں سال کا پہلا ماہ ہی شہریوں پر بھاری ثابت ہونے لگا، یکم جنوری سے 23جنوری تک ایک خاتون اور سیکورٹی اہلکار سمیت15شہری اسٹریٹ کرمنلز کی بے رحم گولیوں کا نشانہ بن گئے تفصیلات کے مطابق روشنیوں کے شہر کراچی میں اسٹریٹ کرمنلز کی سفاکیت عروج پر ہیں ، رواں سال کے پہلے 23روز میں 10گھروں کے چراغ بجھا دیے گئے رواں ماہ سے اب تک ایک خاتون سمیت 10 افراد کو گولیاں مار کر قتل کردیا گیا، ڈکیتی مزاحمت پر 9تھانوں کی حدود میں 10شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ پہلا قتل عوامی کالونی ، دوسرا شارع فیصل، تیسرا سچل چوتھا سائٹ سپرہائی وے ، پانچواں سرجانی، چھٹا قتل بلدیہ، ساتواں بلال کالونی‘آٹھواں بوٹ بیسن ، نواں شارع فیصل اور دسواں سعیدآباد بلدیہ میں ہوا۔ قتل کی تمام وارداتیں 2جنوری سے لے کر 23جنوری تک ہوئیں اور آخری قتل 18سالہ نعیم کا صرف ڈکیتی کی واردات دیکھنے پر کیا گیا۔ پولیس نے دس کیسز میں سے دو کیسز کو ٹریس کرکے ملزمان کو پکڑا‘ جبکہ کورنگی انڈسٹریل ایریا پولیس نے شاہد کے مرکزی قاتل کو گرفتار کیا۔ بوٹ بیسن پولیس نے سیکورٹی ادارے کے اہلکار شان کے قاتلوں کو پکڑا تاہم مختلف علاقوں میں رہنے والے 8خاندان آج بھی انصاف کے منتظر ہیں پولیس چیف جاوید اوڈھو کا کہنا ہے پولیس میں نفری کی کمی کو پورا کیا جارہا ہے۔ پولیس میں تمام تر بھرتیاں میرٹ پر کی گئی ہیں جن میں 5000 جوان ٹرینگ سینٹر میں زیر تربیت ہیں

جن میں سے کچھ کو انڈسٹریل زون میں تعینات کیا جائے گاپولیس چیف نے انڈسٹریل زونز میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیبات پر زور دیا کاروباری مقامات کو محفوظ بنانے کے لئے اینڈسٹریز کے اندر اور باہر کیمرے لگانے اور پارکنگ ایریا میں بھی کیمروں کی انسٹالیشن کو ضروری قرار دیا اس موقع پرمراد سونی اور ان کی ٹیم کی تعریف کی جنھوں نے کیمروں کی فراہمی اور انسٹالیشن میں پولیس کے ساتھ تعاون کیا۔سیف سٹی پروجیکٹ پر بڑی تیزی سے کام جاری ہے لیکن اس دوران شہر میں امن و امان کے قیام میں کاروباری حضرات اپنا کردار ادا کریں تاکہ کرائم فری سٹی بنایا جا سکے۔شہر میں 4 ملین موٹر سائیکلز رجسٹرڈ ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ان میں 4000 اضافہ ہورہا ہے جن کی چوری کی شکایات بھی زیادہ ہیں جبکہ ان کے پرزہ جات اور چوری شدہ موبائل فونز کے پرزہ جات مارکیٹوں میں فروخت ہو تے ہیں اس حوالے سے کاروباری حضرات کے تعاون اور نشاندہی سے انکی فروخت کو روکا جا سکتا ہے اور متعلقہ ملزموں کی گرفتاری آسانی سے عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ گاڑیوں میں ٹریکرز کے حوالے سے جدید پروگرامنگ اور سیکنڈری مارکیٹوں کے لئے جامع حکمت عملی تشکیل دی جا رہی ہے دنیا بھر میں مقررہ حد سے زیادہ آبادی والے شہروں میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے بھرپور اقدامات کیے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود لندن جیسے ترقی یافتہ شہر میں بھی جرائم ہوتے ہیں۔نیو یارک جیسا ماڈرن ٹیکنالوجی استعمال کرنے والا شہر بھی جرائم سے محفوظ نہیں ہے۔ جرائم کے جھکڑ میں، لاس اینجلس، زیوریخ اور میڈرڈ بھی گھومتے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح دہلی اور دبئی بھی ان سے پاک نہیں ہیں۔ برسلز‘ ماسکو‘میکسیکو سٹی‘بنکاک‘ ڈھاکا اور جکارتہ کی حالت بھی سب کے سامنے ہے۔ باکو ، منیلا ، ممبئی اور قاہرہ بھی اسی فہرست میں نظر آتے ہیں لیکن ہر شہر میں جرائم کی نوعیت مختلف ہے اور اسی طرح ان جرائم پر قابو پانے کے لیے بھی مختلف طرح کی فورسز اور یونٹس تشکیل دیے جاتے ہیں۔ ڈھائی کروڑ سے زائد آبادی کے شہر کراچی میں امن و امان کی صورتحال بہتر بنانا اور اسے برقرار رکھنا کسی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، یہاں بھی امن و امان برقرار رکھنے کی اولین ذمہ داری محکمہ پولیس پر عائد ہوتی ہے جبکہ رینجرز، فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) اور دیگر قانون نافذ کرنے والے دیگر ادارے پولیس کی معاونت کرتے ہیں۔ شہر قائد میں امن و امان کی صورتحال میں گزشتہ دس برس کے دوران بہتری آئی ہے، جس کا سہرا پولیس سمیت تمام اداروں اور وفاقی حکومت کو بھی جاتا ہے، ورنہ اس شہر نے ایک ہی دن میں تیس تیس اور چالیس چالیس افراد کو موت کی وادی میں بھی جاتے ہوئے دیکھا ہے۔ بم دھماکوں کے ساتھ خود کش دھماکوں میں بھی لوگوں کو لقمہ اجل بنتے دیکھا ہے، فائرنگ کے واقعات میں کئی کئی افراد کو ایک ساتھ زندگی کی بازی ہارتے ہوئے دیکھا ہے ، دفتروں میں موجود افراد کو پیٹرول چھڑک کر آگ لگا کر زندگی سے محروم ہوتے بھی دیکھا ہے ، ایک ہی خاندان کے کئی افراد کے ایک ساتھ جنازے اٹھتے بھی دیکھے ہیں۔ بوڑھے باپ کے کندھوں پر اس کے بیٹے کی میت بھی اس شہر نے دیکھی ہے حال ہی میں شہر بھر میں کئی بڑے ایونٹس منعقد ہوئے جن میں سرفہرست انٹرنیشنل کرکٹ ہے وہی نیوزی لینڈ کی ٹیم جو کچھ عرصہ قبل ای میل پر ملنے والی سیکورٹی تھریٹ پر اپنا جاری دورہ اچانک منسوخ کر کے سیریز ادھوری چھوڑ کر وطن عزیز سے واپس چلی گئی تھی اور رواں برس واپس آئی اور ٹیسٹ میچ کے ساتھ ساتھ ون ڈے سیریز بھی کھیل کر گئی۔ نیوزی لینڈ کے دورے کے موقع پر پولیس کی جانب سے سکیورٹی کے بہترین انتظامات دیکھنے میں آئے اور سینکڑوں افسران و جوانوں نے سیکورٹی کے فرائض سرانجام دیے۔ ٹیم کو ایئرپورٹ سے سخت حفاظتی حصار میں ہوٹل منتقل کیا گیا جبکہ اس دوران عام ٹریفک کی آمدورفت روک دی جاتی، اسی طرح ہوٹل سے نیشنل اسٹیڈیم اور نیشنل اسٹیڈیم سے واپس ہوٹل تک فول پروف سیکورٹی فراہم کی گئی، قریبی عمارتوں پر اسنائپر کی تعیناتی اور میچ سے قبل اسٹیڈیم کی بم ڈسپوزل یونٹ کے ذریعے تلاشی بھی لی گئی جبکہ اس دوران تربیت یافتہ بو سونگھنے والے کتے (اسنائفر)بھی ہمراہ تھے۔

اسی طرح شہر بھر میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے موقع پر بھی پولیس ، رینجرز ، فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں نے مشترکہ طور پر سیکورٹی پلان تیار کیا اور چالیس ہزار سے زائد کی نفری نے انتخابات کے پرامن انعقاد کو یقینی بنایا۔ شہر بھر میں لاکھوں ووٹرز ، امیدوار ، پولنگ اسٹیشن ، پولنگ بوتھ اور اسی طرح انتخابی عمل میں حصہ لینے والے عملے اور انتخابی مٹیریل کی ترسیل سمیت تمام تر مراحل میں پولیس نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا اور اپنے فرائض بہترین طور پر سر انجام دیے۔بلدیاتی انتخابات کے روز شہر بھر سے امن و امان کے بارے میں کوئی ایسی اطلاع موصول نہیں ہوئی جس سے شہر کی فضا خراب ہو یا پرامن ماحول کو نقصان پہنچے۔ اکا دکا واقعات کہیں کہیں رونما ہوئے جن میں دو پارٹیوں کے کارکنان نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی، جھگڑا ہوا ، ہاتھا پائی ہوئی لیکن پولیس اور رینجرز نے کہیں بھی صورتحال بگڑنے نہیں دی۔جہاں بھی گڑبڑ کی اطلاع موصول ہوئی تو فوری طور پر نہ صرف بھاری نفری موقع پر پہنچی بلکہ اعلیٰ افسران نے بھی موقع پر پہنچ کر ذمہ داران سے رابطے کر کے صورتحال کو سنبھالا۔ پورا دن کہیں سے بھی فائرنگ کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔ شہر بھر میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا جس میں اسلحے کا استعمال کیا گیا ہو، اس کا تمام تر سہرا خصوصاً پولیس اور اس کے بعد پولیس کے معاون اداروں کے سر جاتا ہے۔ اسی کے ساتھ شہر بھر میں مختلف ایونٹس بھی منعقد ہوتے رہے جن میں ایکسپو سینٹر میں مختلف اقسام کی نمائش لگیں جن میں سرفہرست مویشیوں کی نمائش شامل ہے جبکہ اس کے علاوہ گاڑیوں اور فرنیچر کی بھی نمائشوں کا انعقاد کیا گیا۔ کلفٹن میں فوڈ فیسٹیول نے بھی شہر کی رونقوں کو چار چاند لگائے، ان ایونٹس میں بھی شہریوں نے ہزاروں کی تعداد میں شرکت کی اور جہاں ہزاروں افراد ایک ہی وقت میں جمع ہوں تو سیکورٹی رسک تو ویسے ہی بن جاتا ہے لیکن ان تمام تر ایونٹس کو پولیس کی جانب سے فول پروف سیکورٹی فراہم کی گئی اور شہریوں نے پرامن ماحول میں رہتے ہوئے شہر قائد میں منعقد ہونے والے ان ایونٹس کو بھرپور طریقے سے نہ صرف خود انجوائے کیا بلکہ تین تین روز تک جاری رہنے والے میلوں میں اپنے اہلخانہ کے ساتھ شرکت کی جوکہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پولیس اور معاون ادارے اپنے فرائض بخوبی انجام دینے میں مشغول ہیں آج یہ شہر امن کا گہوارہ ہے تو ایسے میں امن قائم کرنے والوں کو شاباش دینا بھی ان کا حق بنتا ہے، اس امن کے پیچھے ان کی قربانیاں شامل ہیں ، شہدا کا لہو شامل ہے، ان گنت اہلکار زخمی ہوئے ، کچھ ایسے بھی ہیں جو بستر سے ہی جا لگے، قوم انھیں ان کی عظیم اور لازوال قربانیوں پر سلام پیش کرتی ہے جنہوں نے ملک کے معاشی حب کو امن کا گہوارہ بنانے میں اپنا کردار ادا کیا۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*