ازراہ عنایت، عنایت علی خان کی عنایتیں

عنایت علی خان سے ایک مختصر ملاقات میں ہر بات کے ساتھ ایک حکایت، کوئی واقعہ ، شعر اور کئی یادوں کی روداد سننے کو ملی، ہر بات ایسی کہ سر دھننے کو جی

چاہے۔آپ بھی پڑھیں اور سننے کا مزہ لیں۔


استاد، محقق، شاعر، خطیب، نثر نگار یہ کئی لوگوں کا ذکر نہیں ہے بلکہ یہ ہیں ایک ہمہ جہت شخصیت ‘عنایت علی خان’۔

مزاحیہ، سنجیدہ ، نعتیہ کلام، حمد، بچوں کی کہانیاں ،کالم اور بھی نجانے کیا کچھ عنایت علی خان صاحب، لوگوں کو یہ ہر رنگ میں یاد ہیں لیکن مزاحیہ شاعری کا رنگ زیادہ گہرا ثابت ہوا اس لیے ان کے تعارف میں’مزاحیہ شاعر’ سب سے اوپر ہے۔

بات کرنے والا نہ صرف قلم کا سوار ہو بلکہ کتابوں اور دنیا کا وسیع مطالعہ رکھتا ہو تو اس سے گفتگو مزید پُرلطف ہوجاتی ہے۔

عنایت علی خان سے ایک مختصر ملاقات میں ہر بات کے ساتھ ایک حکایت، کوئی واقعہ، شعر اور کئی یادوں کی روداد سننے کو ملی، ہر بات ایسی کہ سر دھننے کے ساتھ ہنسنے کو بھی جی چاہے، اور سوچنے پر مجبور ہو جائے۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عنایت علی خان علم کا ایک سمندر تھے جن سے گفتگو کو احاطے میں سمیٹنا سمندر کو کوزے میں بند کر دینے کے مترادف ہے۔

26 جولائی 2020 کو انتقال 85 برس کی عمر میں انتقال کرنے والے عنایت علی خان کا آج یوم پیدائش منایا جا رہا ہے۔ 

2019 میں جیو ویب سے خصوصی گفتگو میں عنایت صاحب نے جو کچھ عنایت کیا انہی کی زبانی سنیے۔

‘ایک دفعہ نویں جماعت کے استاد نے پوچھا تھا تم سائنس لو گے یا آرٹس، میں نے کہا آرٹس لوں گا۔ کہنے لگے تم تو اتنے ہوشیار طالب علم ہو سائنس کیوں نہیں! میں نے کہا کہ میرے حالات ایسے نہیں ہیں کہ میں پھر میٹرک کے بعد کالج میں پڑھ سکوں۔ میں تو پرائمری کا استاد بننا چاہتا ہوں بس۔

میرا ایک شعر ہے جو اس کیفیت کو بیان کرتا ہے؛

میں اپنے سوالِ شوق کی کمتری پر خجل رہا

تیری نوازش بے کراں نے میری طلب سے سوا دیا

دیکھیے کہ اپنے رب سے کتنا کم مانگا، پرائمری کی خواہش تھی جس کی زندگی میں اس کے نام سے پہلے سابقہ لگا دیا ‘پروفیسر’ کا۔ یہ اللہ کا کرم ہے۔


استاد، محقق، شاعر، خطیب، نثر نگار یہ کئی لوگوں کا ذکر نہیں ہے بلکہ یہ ہیں ایک ہمہ جہت شخصیت ‘عنایت علی خان’۔

مزاحیہ، سنجیدہ ، نعتیہ کلام، حمد، بچوں کی کہانیاں ،کالم اور بھی نجانے کیا کچھ عنایت علی خان صاحب، لوگوں کو یہ ہر رنگ میں یاد ہیں لیکن مزاحیہ شاعری کا رنگ زیادہ گہرا ثابت ہوا اس لیے ان کے تعارف میں’مزاحیہ شاعر’ سب سے اوپر ہے۔

بات کرنے والا نہ صرف قلم کا سوار ہو بلکہ کتابوں اور دنیا کا وسیع مطالعہ رکھتا ہو تو اس سے گفتگو مزید پُرلطف ہوجاتی ہے۔

عنایت علی خان سے ایک مختصر ملاقات میں ہر بات کے ساتھ ایک حکایت، کوئی واقعہ، شعر اور کئی یادوں کی روداد سننے کو ملی، ہر بات ایسی کہ سر دھننے کے ساتھ ہنسنے کو بھی جی چاہے، اور سوچنے پر مجبور ہو جائے۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عنایت علی خان علم کا ایک سمندر تھے جن سے گفتگو کو احاطے میں سمیٹنا سمندر کو کوزے میں بند کر دینے کے مترادف ہے۔

26 جولائی 2020 کو انتقال 85 برس کی عمر میں انتقال کرنے والے عنایت علی خان کا آج یوم پیدائش منایا جا رہا ہے۔ 

2019 میں جیو ویب سے خصوصی گفتگو میں عنایت صاحب نے جو کچھ عنایت کیا انہی کی زبانی سنیے۔

‘ایک دفعہ نویں جماعت کے استاد نے پوچھا تھا تم سائنس لو گے یا آرٹس، میں نے کہا آرٹس لوں گا۔ کہنے لگے تم تو اتنے ہوشیار طالب علم ہو سائنس کیوں نہیں! میں نے کہا کہ میرے حالات ایسے نہیں ہیں کہ میں پھر میٹرک کے بعد کالج میں پڑھ سکوں۔ میں تو پرائمری کا استاد بننا چاہتا ہوں بس۔

میرا ایک شعر ہے جو اس کیفیت کو بیان کرتا ہے؛

میں اپنے سوالِ شوق کی کمتری پر خجل رہا

تیری نوازش بے کراں نے میری طلب سے سوا دیا

دیکھیے کہ اپنے رب سے کتنا کم مانگا، پرائمری کی خواہش تھی جس کی زندگی میں اس کے نام سے پہلے سابقہ لگا دیا ‘پروفیسر’ کا۔ یہ اللہ کا کرم ہے۔

جتنے بھی شعبے ہیں زندگی میں ان کی سربراہی مل جائے تو فخر کی بات ہے، لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی عزت و توقیر وہ نہیں رہتی جتنی کرسی میں رہتے ہوئے ہوتی تھی کیونکہ ان سے نفع اندوزی کا امکان نہیں رہتا۔

درس و تدریس وہ شعبہ ہے جہاں ریٹائرمنٹ کے بعد دن بدن عزت بڑھتی جاتی ہے، وہ شاگرد جو شرارتی تھا کلاس میں، گستاخی بھی کر بیٹھتا تھا۔ بیس سال کے بعد ملے گا استاد سے تو ایسے معلوم ہوگا جیسے کوئی پیر مل گیا ہو اپنے مرید سے۔ یہ تو میرے شاگرد ہیں۔

آج کل کے دور میں جب علم کی قدر نہیں رہی تو معلم کی قدر کیوں ہو گی۔

محکوم نہیں آزاد ہیں، غلامی کے الزام کو رد کرتے ہیں

توازن رکھتے ہیں،ٹیلنٹ برآمد کرتے ہیں اور ریٹ درآمد کرتے ہیں

کراچی کا باسی دونوں طرح سے ہوچکا ہوں۔ باسی یعنی پرانا ،پانچ سال تو گزر چکے حیدرآباد سے یہاں منتقل ہوئے، اور باسی یعنی یہیں کا رہائشی۔

حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا

لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر

جہاں تک سوال ہے میری مزاحیہ شاعری کا! میرے والد مرحوم مزاح میں کہتے تھے حیدرآباد میں فروغ ادب کے نام سے ایک انجمن تھی وہ اس کے نائب تھے، ان کا انتقال ہوا تو ان کے احباب نے کہا کہ اب یہ پگڑی تم باندھ لو، طبیعت میں کچھ شغل تو تھا ہی لیکن اسکول اور کالج کے زمانے میں شاعری میں شوخی ہوتی ہی ہے۔

اسکول کے اساتذہ کی جو خصوصیات ہوتی ہیں ان کی وجہ سے ان کے نام رکھ دیا کرتے تھے، میں نے بھی پوری ایک مثنوی لکھی تھی اپنے تمام استادوں کے لیے ان کے ناموں کے ساتھ ۔ ایک واقعہ ایسا ہوا کہ حیدرآباد میں ایک صاحب جا رہے تھے اپنی بیگم کے ساتھ۔۔۔خود حسب دستور آگے تھے اور بیگم پیچھے تھیں، وہ کبھی کبھی مڑ مڑ کر دیکھتے کہ بیگم ساتھ آرہی ہیں یا نہیں، جب وہ دیکھتے تو بیگم منہ پر نقاب ڈال لیتیں۔

ایک بار ایسا ہوا، دو بار ایسا ہوا، تیسری بار جب ایسا ہوا تو انھوں نے کہا کہ اللہ کی بندی رک جاؤ یہاں اور یہ برقعہ اتارو، ساری دنیا کو اپنا چہرہ دکھاتی ہو مجھ سے کیا پردہ ہے اور یہ کہ کر برقعے کو دیا سلائی دکھا دی، اس پر میرے ایک بزرگ تھے انھوں نے یہ مصرعہ کہہ دیا؛

جلا ڈالا سرِ بازار برقعہ، 

اس پر میں نے کچھ مصرعے اور لگا دیے، 

تھا میری جان کا آزار برقعہ اور ساتھیوں کے کہنے پر جنگ اخبار میں بھیج دیا، مجید لاہوری نے اپنے کالم میں شائع کر دیا، اب نویں جماعت کے بچے کا کلام جنگ میں چھپ جائے تو ا س کے لیے بہت خوشی کی بات ہو جاتی ہے۔

پہلے میرا ایک ساتھی تھا وہ ایک آنہ لائبریری سے کتابیں لاتا تھا لیکن اس کا اپنا ایک ذوق تھا، وہ سارا لٹریچر لیفٹ کا لاتا تھا، کرشن چندر عصمت چغتائی اور منٹو۔

ہ پہلے خود سب پڑھتا اور پڑھ کر مجھے ایک رات کے لیے دے دیا کرتا تھا، پاکستان بننے کے بعد جو حالات تھے، غربت تھی، عسرت تھی، ہماری بھی یہی کیفیت تھی، اس میں جو کمیونسٹ لٹریچر پڑھا تو سونے پر سہاگہ ہوگیا اور پھر ہم نے باغیانہ قسم کی نظمیں کہنا شروع کر دیں۔اس کے بعد پھر کچھ کتابیں دین کے پڑھیں اور رجحان اس طرف ہو گیا، طلبا کی ایک تنظیم ہوا کرتی تھی جمیعت طلبہ اس سے تعارف ہو گیا تھا، تعلیم سے نجات ملی تو تدریس کی طرف آئے پھر جماعت اسلامی میں شرکت کرلی۔

میرے کلام میں جہاں مزاح ہے وہاں سنجیدگی بھی ہے۔ ایک چھوٹا سا کتابچہ جہادی ترانوں کا بھی تیار کیا تھا ‘یا میں مرد مجاہد یا میں غازی’، کالج میں یونین کا سیکرٹری بھی رہا، وہاں تحریری مقابلے ہوا کرتے تھے، ہمارے کالج میں اور اس کا اہتمام اس قدر ہوتا تھا کہ پورے پاکستان میں ہونے والے تقریری مقابلے ہمارے کالج کی تاریخیں دیکھ کر رکھا کرتے تھے۔

ایک تقریری مقابلے میں دوستوں کے ساتھ مل کر ہوٹنگ کر رہے تھے تو سیکریٹری نے کہا کہ ہمت ہے تو اسٹیج پر آؤ ہم نے کہا کہ نام سے مت بلانا پروفیسر فضل گل کہنا۔کالج کے چپراسی سے ملائیشیا کا جوڑا لیا اور پشاوری ٹوپی پہن کر ہاتھ میں نسوار کی ڈبیا لی اور اسٹیج پر چڑھ گئے۔اسی دوران غالب کی ایک غزل ‘یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا’ پٹھان کے لہجے میں سنائی۔

اس کے بعد یہ ہوا کہ ہم جس مشاعرے میں بھی جاتے غالب کی پیروڈی سناتے رہے۔ اس سے اسٹیج کا اعتماد ہو گیا۔ ایک موقع پر محسن صاحب نے کہا کہ عنایت صاحب یہ ورائٹی شو نہیں ہے مشاعرہ ہے، آپ غزل سنائیے۔ تو پھر خیال ہوا کہ یہ واقعی کالج کی حد تک تو ٹھیک تھا ۔اس سے ہر مشاعرے میں دھوم تو مچ جاتی تھی۔پھر سنجیدہ شاعری بھی ہوئی اور مزاح بھی۔

میرا تعلق راجپوتانہ کی ریاست ٹونک سے ہے۔ ٹونک کے بارے میں جگر صاحب کہا کرتے تھے کہ یہاں تو بچہ بچہ پکڑ کر داد دیتا ہے۔میرا گھرانہ اس حد تک ادبی تھا کہ میرے دادا ، والد، نانا،ماموں سب شاعر تھے۔والدہ بھی شعر کہا کرتی تھیں۔

شاعری کا ماحول ہونے کے باوجود والد صاحب نے منع کر دیا تھا کہ ابھی تعلیم مکمل کر لو، شاعری کی لت اگر جنون کی حد تک لگ جائے تو پھر پڑھائی نہیں ہوتی، اسی بات پر لوگوں نے لطیفے بھی بنائے ہوئے ہیں، ایک صاحب سے کسی نے پوچھا کہ کتنے بچے ہیں وہ کہنے لگے، 5 ہیں چار ہی سمجھو ایک تو شاعر ہو گیا ہے۔

میرے والد کے ایک دوست اور ہمارے عزیز بزرگ نے جنگ اخبار میں شائع ہونے والے رئیس امروہوی کے ایک قطعے کے 3 مصرعے سنائے چوتھا انھیں یاد نہیں تھا۔چوتھا میں نے سنا دیا ۔کہنے لگے کہ تم نے پڑھا تھا میں نے کہا کہ نہیں پڑھا تو نہیں تھا ذہن میں آگیا تھا۔انھوں نے والد سے کہا کہ بچہ موزوں طبع ہے اسے آپ شاعری کی اجازت دے دیں۔ پھر تو یہ ہوا کہ میں انھیں سناتا تھا اور وہ مجھے۔

ایک بار ایسا ہوا کہ ہم مشاعرے میں جا رہے تھے، والد صاحب کہنے لگے یہ اشعار سنو؛

دبک کر راہ زن کو راہبر کہنا ہی پڑتا ہے

نہ چاہے جی اگر کہنا ہی پڑتا ہے

اگر چہ بیگماتی ٹھاٹھ وہ باقی نہیں رہے

مگر عمر بھر بیگم کو بیگم کہنا ہی پڑتا ہے

کہا بچوں نے مولا بخش کا خوف کچھ ایسا ہے

پھٹیچر سا ہے ٹیچر پھر سے کہنا ہی پڑتا ہے

وہ چہروں پر نکِل کروا کر گھر سے جب نکلی ہیں

تو اخلاقاً انھیں رشک قمر کہنا ہی پڑتا ہے

ہمارے ذہن میں بھی ایک قافیہ کا مصرعہ بن گیا ہے کہنے لگے سناؤ؛

اگر ازروئے قرآن ہم کہیں اولاد کو فتنہ

تو اس کی والدہ کو فتنہ گر کہنا ہی پڑتا ہے

(عربی میں فتنے کے معنی آزمائش کے ہوتے ہیں اور اردو میں اس کے معنی ہیں ہنگامہ کرنے والا)

کالج میں بزم ادب میں کبھی افسانے پڑھے اورکچھ نظمیں اس طرح شوق پیدا ہوا ۔

یہاں عنایتؔ آپ کو مشاعروں کی داد نے

چڑھا دیا ہے بانس پر مذاق ہی مذاق میں

ہر گل است ہر پھول کا ایک رنگت ہوتی ہے۔ مقابلہ موازنہ کسی کا نہیں ہوسکتا، ہر شخص اپنے ذوق کے مطابق شاعری پڑھتا ہے، پڑھا میں نے سب کو ہے۔ابھی پرائمری کی کتاب پوری نہیں ہوئی تھی کہ اقبال کی کتاب ہاتھ لگ گئی، شکوہ جواب شکوہ ۔ اقبال میرا پسندیدہ شاعر رہا ہے۔

شاعری ذریعہ معاش نہیں ہو سکتی۔ ابھی ہمارے ہاں ادبی ذوق پیدا نہیں ہوا کہ لوگ کتاب بھی خریدیں۔شاعر بیچارہ کتاب چھپواتا ہے پھر خود ہی مفت میں بانٹتا پھرتا ہے۔ شہرت ملنے کے بعد کچھ کتابیں بکنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے تو پبلشر استحصال شروع کر دیتا ہے۔

یہ ایک اضافی آمدنی کا ذریعہ یا شغل تو ہو سکتا ہے لیکن کلیتاً کوئی شاعر شاعری پر انحصار نہیں کر سکتا۔

نوجوانی میں شاعر عموماً رومانویت پسند ہوتا ہے، عشق و عاشقی گل و بلبل یہی موضوع موزوں رہتے ہیں، یوسفی نے کہا ہے کہ جس شعر پر دمڑے یعنی چھتیں اڑتی ہیں گھر والے سن لیں تو لڑکا بد کردار ہو گیا ہے، اکبر نے کیا خوب کہا ہے کہ؛

دیوانوں سے شعر نہ چنیے سب کا خلاصہ مجھ سے سنیے

آپ کی صورت ماشااللہ میری نیت توبہ توبہ

آج کی شاعری میں موزونیت نہیں ہے، مشہور ہونا ایک الگ بات ہے اور شاعر ہونا دوسری بات۔ جو بھی کچھ کہا وہ دوسروں تک پہنچ گیا تو شاعر سمجھتا ہے کہ وہ بڑا شاعر ہو گیا ہے، اسے کسی استاد کی ضرورت نہیں نہ کسی کو دکھانے کی ضرورت ہے۔

اردو کیسی اردو؟ دلی والے کہتے ہیں کہ ہماری اردو اچھی ہے اور لکھنو والے کہتے ہیں کہ ہماری اردو

اردو زبان لکھنو والوں کے سامنے

تعریف بوئے مشک غزالوں کے سامنے

ہر زمانے میں یہ مقابلہ ہوتا تھا، تقسیم کے بعد جب یہاں آئے تو جن صوبوں میں آئے تو وہاں اپنی زبان تھی مختلف علاقوں کے لہجے اور الفاظ اس میں شامل ہوتے چلے گئے، یہ فرق ہو گیا ہے مجید لاہوری کے شعر ہے کہ

وہ بھی دن تھے جب پان کھاتے دلی کے پاندانوں میں

وا ئے رے کہ اب سنتے ہیں کہ جیاستی چونا مار پانوں میں

اردو کا جو وقار اور تمکنت تھا وہ ختم ہو گیا، ایک بار ٹی وی پر ایک خاتون انٹرویو لے رہی تھیں۔

بگڑتے دیکھیں جو اردو زبان کا حلیہ

ہم اپنے ہاتھوں پر سر اپنا ٹیک لیتے ہیں

ہمیں بتائیں کہ آف ہے یا لیگ بریک

جو کہہ رہی ہیں کہ ایک بریک لیتے ہیں۔

میں نے کہا کہ وقفہ کہیے، یہ بریک کیا ہوتا ہے۔

زبان الفاظ کا نام نہیں ہے پوری تہذیب ہوتی ہے زبان میں، پوری اقدار اور عقائد ہوتی ہیں، استاد نہیں ہوگا مطالعہ نہیں ہو گا تو پھر اسی قسم کے شعر ہوں گے؛

بکرے نے جو مارا ہے بکری کو سر

تو بکرا بھی مارے گا بکری کو سر

استاد ایک ادارہ ہوتا ہے، اس کے بغیر ممکن نہیں کہ آگے بڑھا جا سکے۔

میرے گھر میں بیگم کو ایک موقع پر بچوں نے گھیر لیا کہ آپ بھی کوئی شعر سنائیے کہنے لگیں کہ تمھارے باپ سناتے ہیں نا اتنے شعر، جب بچے زیادہ سر ہوئے تو بہت زیادہ زچ ہر کر سنانے لگیں۔ لب پہ آتی ہے تمنا میری ۔۔۔ بڑے بیٹے کو اشعار بہت یاد تھے لیکن وہ بھی شعر نہیں کہتا تھا۔

ٹھیک بھی ہے ایک گھر میں ایک ہی شاعر ہو سکتا ہے، ہمارے ایک شاگرد ہیں م ش عالم دونوں میاں بیوی شاعر ہیں کہتے ہیں؛

میری بیگم بھی شاعر ہیں اور میں بھی شاعر ہوں

وہ میرے کان کھاتی ہیں میں ان کے کان کھاتا ہوں

ایک وقت ہوتا ہے ایک عمر ہوتی ہے ، فوارا ہوتا ہے جوش ہوتا ہے ولولہ ہوتا ہےشہرت کی فکر کے اظہار کا ایک ذریعہ ہوتا تھا۔لیکن عمر کے ساتھ ساتھ سبھی شوق مضحمل ہوجاتے ہیں۔

پارسائی کا پندار اپنی جگہ

فضل ربی کی جھنکار کی اپنی جگہ

گھر میں بی وی ہیں آفس میں سیکٹری

نور اپنی جگہ نار اپنی جگہ

گل اپنی جگہ خار اپنی جگہ

میر کا شعر ہے کہ دل سے شوق رخ نکو نہ گیا

تانکنا جھانکنا کبھی نہ گیا

تانکا جھانکنا مسلک میر ہے

یہ بڑھاپے کا آزار اپنی جگہ

مسخرہ پن عنایت سے چھٹتا نہیں

اس کے سنجیدہ اشعار اپنی جگہ

یہ دوسرا دور تھا پیپلز پارٹی کا اور آصف زرداری مسٹر ٹین پرسنٹ مشہور ہو چکے تھے۔

سوشل میڈیا پر میرے بچوں نے کوئی ایک آدھ اکاؤنٹ بنا رکھا ہے۔میں اس زمانے کا نہیں ہوں اس لیے اس کوچے میں داخل ہی نہیں ہوا ۔پہلے ایک میڈیا سے تو نبٹ لیں ۔اتنا سوشل نہیں ہونا چا ہیے۔ویسے بھی یہ شو شا اور شوشا میڈیا ہے۔

کیا جانتے ہیں میں اسے شہرت کہوں یا رسوائی کہوں میں نے چھپن سال پڑھایا 1956 سے پڑھا یا مختلف اداروں میں۔

میرے بارے میں یار دوستوں نے اڑا رکھی ہے کہ میں آصف علی زرداری کا استاد رہ چکا ہوں قصہ کچھ یوں ہے کہ؛ یہی شاہکار ہے تیرے ہنر کا، وہ لوگ ساتویں سے آٹھویں میں داخل ہوئے تو میں کیڈٹ کالج چھوڑ کر سکھر جا چکا تھا، اسکول چھوڑ چکا تھا۔

ایک دفعہ اسلام آباد سے کال آئی کہ کیا آپ عمران خان کو پسند کرتے ہیں ، میں نے کہا کہ جی ہاں بحیثیت کرکٹر میں ان کا مداح ہوں ۔ پھر سوال سننے کو ملا کہ تو پھر آپ پی ٹی آئی میں شامل ہوجائیں میں نے کہا کیا غضب کرتے ہو بھائی جماعتیے کو پی ٹی آئی میں شامل ہونے کا کہہ رہے ہو۔

کرکٹر کے لگا تار تین میچوں کو ربر کہا جاتا ہے، میں نے بھی عمران خان کے لیے تین قطعات لکھے ہیں۔پہلا ان کی شاعری پر،

یار عمران خان جواب نہیں جا کے لندن میں میچ کرتے ہو

کیچ مس ہوجائے یہ کیسے ممکن ہے تم تو مس کو بھی کیچ کرتے ہو

عمران خان آگیا واپس زمین پر

اوج فلک پہ آپ نے مارا جو تیر تھا

پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا

کہتے ہیں ملک کو مدینہ بنائیں گے

یہاں کا نظام عدل جہاں کو دکھائیں گے

لیکن سوال یہ ہے کہ اس سارے کام میں

عامر لیاقت آپ کے کس کام آئیں

پی ٹی آئی کا حصہ زائد

باقی کا حصہ تھوڑا تھوڑا

کہاں کی اینٹ کہاں کا روڑا

بھان متی نے کنبہ جوڑا

پیلپلز پارٹی کے دور میں وزیر داخلہ تھے رحمان ملک ، بھتہ خوری عروج پر تھی تاجروں نے ایک جلوس نکالا تھا۔ملک صاحب نے کہا کہ بھتہ ایک لعنت ہے اور ہم یہ لعنت پانچ دن میں ختم کر دیں گے۔

وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ لعنت پانچ دن میں ختم کر دیں گے

کہیں سے سن لیا ہو گا کہ دنیا چار دن کی ہے

موضوع بڑا ہو یا چھوٹا بس فوراً ہی ذہن میں کچھ نہ کچھ بن جاتا ہے ،

جب واپڈا والوں سے کہا جا کہ کسی نے، کس نے کہا ہمیں راتوں کو سزا دو

بولے ہمیں اقبال کا پیغام ملا تھا اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

مجھے رب نے خوب نوازا، میں نے زندگی میں یہی سبق سیکھا کہ جو مجھے دیا ہے مجھے اسی کا حساب دینے کی فکر ہے، مجھے اس سے غرض ہو کہ اسے کیا دیا اسے کیا دیا۔ آخر میں اپنی فرمائش پر اپنی نعت سے ایک شعر سنانا چاہوں گا،

کسی غم گسار کی محنتوں کا خوب میں نے یہ سلہ دیا

جو میری غم میں گھلا کیا اسے میں نے دل سے بھلا دیا

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*