الیکشن کمیشن نے دوبارہ سپریم کورٹ سے رجوع کیا تو بڑا بینچ بن سکتا ہے
مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے 13 رکنی بنیچ میں سے 8 ججوں نے اکثریتی تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔ اس کے بعد حکومت کیلئے پارلیمنٹ میں پی ٹی آئی کا راستہ روکنے کا آپشن تقریباً ختم ہو گیا ہے۔ اگر اس فیصلے پر عمل ہوتا ہے تو نہ صرف حکومت کے لیے آئینی ترمیم منظور کرنا ناممکن ہو جائے گا بلکہ اس کا وجود بھی خطرے میں پڑ جائے گا اور جیسا کہ بعض حلقے خدشہ ظاہر کرتے ہیں اگر اسی سپریم کورٹ نے کچھ نشستون پر انتخابی نتائج الٹ دیئے تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی حکومت کھو بیٹھیں گے۔ ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ حکومت کے پاس اب ممکنہ آپشن کیا ہیں اور مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عمل درآمد سے بچنے کیلئے وہ کیا کر سکتی ہے۔
الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے ’آج نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ الیکشن کمیشن تفصیلی فیصلے کے بعد سپریم کورٹ سے دوبارہ رجوع کرسکتا ہے۔
الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے کہا کہ تفصیلی فیصلے کے لیے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست پہلا ردعمل ہوسکتا ہے۔ حکومت کی جانب سے سپریم کورٹ میں دو اضافی جج مقرر کیے جانے کے بعد اس وقت سپریم کورٹ میں چیف جسٹس سمیت ججوں کی تعداد 19 ہو چکی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اکثریتی فیصلہ دینے والے 8 جج صاحبان اپنا ذہن واضح کر چکے ہیں لیکن اگر 13 رکنی بینچ کے فیصلے کو الٹنے کیلئے 18 رکنی بڑا بینچ بنا دیا جائے تو فیصلہ الٹنا ممکن بھی ہے، ایسا کرنے سے کون سے نئے قانونی سوالات کھڑے ہوں گے اور عدلیہ میں تقسیم کیا رنگ دکھائے گی وہ ایک الگ معاملہ ہے۔
الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد نے کہا کہ حکومت کے پاس ایک اور آپریشن نئے الیکشن کی طرف جانے کا بھی ہے، یہ انتہائی آپشن ہو سکتا ہے لیکن مولانا فضل الرحمان حالیہ دنوں میں اس کا مطالبہ کرچکے ہیں اور نئی صورت حال میں ان کا مطالبہ خاص معنی اختیار کرگیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر دوبارہ الیکشن ہوتے ہیں تو نتائج پی ٹی آئی کے لیے خلاف توقع بھی ہوسکتے ہیں، تاہم الیکشن کی طرف جانے کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ حکومت خود کو پی ٹی آئی کا راستہ روکنے میں کس حد تک کامیاب تصور کرتی ہے، لاہور میں پی ٹی آئی جلسے کے بعد ن لیگ کی امیدیں کافی بڑھ چکی ہیں لیکن اکثر اندازے غلط بھی ہوجاتے ہیں۔