پی ٹی آئی کو بلا نہیں ملا، سپریم کورٹ نے پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم قرار دیدیا

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی درخواست منظور کرلی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو بلّے کے نشان سے متعلق الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی درخواست پر سماعت مکمل کرنے کے محفوظ فیصلہ سنادیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سماعت مکمل کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ محفوظ فیصلہ کچھ دیر تک سنایا جائے گا، ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے ہمیں سانس لینے دیں۔

انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ اپنے ساتھ ججز سے بھی مشاورت کرنا ہوگی، دونوں جانب سے اچھے دلائل دیے گئے۔ دلائل جذب کرنے اور نتیجے تک پہنچنے میں وقت درکار ہے۔

فیصلہ سنانے کیلئے ساڑھے 9 بجے کا وقت مقرر کیا گیا تھا، تاہم اس میں تاخیر ہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی بھی بینچ میں شامل تھے۔

سماعت کا آغاز
سماعت کے آغاز میں پی ٹی آئی کے وکیل حامد خان نے کہا کہ مرکزی کیس میں علی ظفر وکیل تھے وہی اس کیس میں دلائل دیں گے۔

جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جو بھی دلائل دینا چاہے ہمیں مسئلہ نہیں۔

چیف جسٹس نے وکیل حامد خان سے استفسار کیا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آچکا ہے آپ نے پڑھا ہے۔

جس پر وکیل حامد خان نے جواب دیا کہ پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھا ہے، پہلے علی ظفر دلائل دیں گے، میں آئینی معاملہ پر دلائل دوں گا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ دو سوالات ہیں کہ کیا عدالتی دائرہ اختیار تھا یا نہیں، کیا الیکشن کمیشن کے پاس انٹرا پارٹی الیکشن کی چھان بین کا اختیار ہے یا نہیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ عدالت کی معاونت کروں گا لیکن آج انتخابی نشان اور حتمی فہرستوں کے اجراء کی آخری تاریخ ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت کو ادراک ہے، عدالت پر ایک بوجھ فیصلہ لکھنے کا بھی ہے جو وکیل پر نہیں ہے، وکیل تو بس دلائل دے کر نکل جاتے ہیں ہمیں فیصلہ لکھنے کے لیے بھی وقت درکار ہوتا ہے۔

پی ٹی آئی وکیل علی ظفر کے دلائل
وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین اور الیکشن ایکٹ الیکشن کمیشن کو انٹرا پارٹی الیکشن کے جائزے کی اجازت نہیں دیتے، انتخابی نشان انٹرا پارٹی انتخابات کی وجہ سے نہیں روکا جا سکتا، آرٹیکل 17 دو کے تحت سیاسی جماعتیں بنانے کا اختیار دیتا ہے، سپریم کورٹ بھی آرٹیکل 17 دو کی تفصیلی تشریح کر چکی ہے، انتخابات ایک انتخابی نشان کے ساتھ لڑنا سیاسی جماعت کے حقوق میں شامل ہے، سیاسی جماعت کو انٹرا پارٹی انتخابات کی بنیاد پر انتخابی نشان سے محروم کرنا آرٹیکل 17 دو کی خلاف ورزی ہے، الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک برتا ہے، الیکشن کمیشن نے بلّے کا نشان چھین کر بظاہر بدنیتی کی ہے، الیکشن کمیشن کورٹ آف لا نہیں جو فیئر ٹرائل دے سکے، پی ٹی آئی کے کسی ممبر نے انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج نہیں کیا، اگر انتخابات چیلنج بھی ہوتے تو یہ سول کورٹ کا معاملہ بنتا ہے، الیکشن کمیشن کے پاس از خود نوٹس کا اختیار نہیں ہے، بنیادی سوال یہ ہے کہ سیاسی جماعت یا افراد کے سول رائٹس کا فیصلہ آرٹیکل 10 اے کے تحت فئیر ٹرائل سے ہو سکتا ہے، الیکشن کمیشن کا فیصلہ آرٹیکل 10 اے سے متصادم ہے کیونکہ ایسا کوئی ٹرائل نہیں ہوا، پی ٹی آئی کے کسی رکن نے انٹرا پارٹی انتخابات کو چیلنج نہیں کیا، پی ٹی آئی سیاسی جماعت ہے جو پرائیویٹ شہریوں کی تنظیم ہے، الیکشن کمیشن کو ازخود طور پر شکایت کنندہ اور فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے، میری پانچ قانونی معروضات ہیں جن پر دلائل دوں گا، پی ٹی آئی نے 8 جون 2022ء کو پہلا انتخاب کرایا، 23 اکتوبر کو الیکشن کمیشن نے کہا کہ یہ غلط الیکشن ہیں، دوبارہ 20 دن میں کرائے جائیں، الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ اس وقت دیا جب سپریم کورٹ نے 8 فروری کی تاریخ کا فیصلہ دیا، ہم نے الیکشن کمیشن کے حکم پر عمل درآمد کے ساتھ اسے چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا، ہم نے فارم 65 داخل کیا اور پھر 14 ارکان جنہوں نے کہا ہم مبینہ رکن ہیں، الیکشن کو چیلنج کر دیا، ان مبینہ پی ٹی آئی ارکان کی شکایت پر الیکشن کمیشن نے کارروائی کی، ان 14 شکایتوں پر کارروائی میں ہم نے زبانی طور پر نشان دہی کی کہ یہ پارٹی ارکان نہیں، سماعت کے اختتام پر الیکشن کمیشن نے ہمیں دو سوالات کے جوابات دینے کے لیے کہا، پارٹی نے ان سوالات کا تحریری جواب داخل کیا، کمیشن نے انٹرا پارٹی انتخابات کالعدم قرار دے دیے، الیکشن کمیشن میں پارٹی انتخابات کے خلاف 14 درخواستیں دائر ہوئیں، ہمارا بنیادی مؤقف تھا کہ درخواست گزار پارٹی ممبر نہیں ہیں، الیکشن کمیشن نے اپنے 32 سوالات بھیجے جن کا تحریری جواب دیا، جواب ملنے کے بعد الیکشن کمیشن نے پارٹی انتخابات کالعدم قرار دے کر انتخابی نشان واپس لے لیا، الیکشن کمیشن کا حکم نامہ میں تسلیم شدہ ہے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے تھے، الیکشن کمیشن نے فیصلے میں کسی بے ضابطگی کا ذکر نہیں کیا، الیکشن کمیشن نے فیصلے کی جو وجوہات دی ہیں وہ عجیب ہیں، الیکشن کمیشن نے انتخابات کو درست کہا چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی غلط قرار دی، الیکشن کمیشن نے کہا تعیناتی درست نہیں اس لیے انتخابات تسلیم کریں گے نہ ہی نشان دیں گے، کل مخدوم علی خان نے تکنیکی نوعیت کے اعتراضات کیے تھے، مخدوم علی خان کا نکتہ پارٹی کے اندر جمہوریت کا تھا

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*