پیاز مہنگی ہونے سے کسان اور صارف دونوں کو نقصان، کما کون رہا ہے؟

پیاز ایک بار پھر عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوگئی ہے۔ ایک ہفتے کے دوران پیاز کی کم از کم برآمدی قیمت 750 ڈالر فی ہزار کلو گرام سے بڑھ کر 1200 ڈالر فی ہزار کلو گرام ہو جانے سے ملک میں عام آدمی کے لیے پیاز کا خریدنا انتہائی دشوار ہوگیا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں پیاز 220 روپے سے 240 روپے فی کلو کے نرخ پر فروخت ہو رہی ہے۔

سندھ کی گیلی (کچی) پیاز مارکیٹ میں آچکی ہے۔ تاجر اس پیاز کو بھی زیادہ سے زیادہ بیچ کر بھرپور منافع بٹور رہے ہیں۔

برآمدی تاجروں نے وزارِتِ تجارت سے کہا ہے کہ وہ پیاز کی کم از کم برآمدی قیمت میں اضافے کو کنٹرول کرے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ پیاز کاشت کرنے والوں کو کچھ ترغیب دی جائے۔ یہ دونوں کام نہیں ہو پارہے۔

ایک خوردہ فروش نے بتایا کہ مارکیٹ میں اچھی پیاز 250 روپے فی کلو کے تھوک نرخ سے فروخت ہو رہی ہے۔ بھارت نے 8 دسمبر کو پیاز کی (پاکستان کو) برآمد پر پابندی عائد کی۔ تب تک کراچی میں پیاز 150 تا 180 روپے فی کلو گرام کے نرخ پر فروخت ہو رہی تھی۔

جو ممالک بھارت سے پیاز کی درآمد پر انحصار کرتے ہیں وہاں پیاز کی قیمت بڑھتی جارہی ہے۔ اس کے نتیجے میں پاکستانی پیاز کو بھی عالمی منڈی میں اچھی قیمت مل رہی ہے۔ پیاز کے بہت سے برآمدی تاجروں نے صورتِ حال سے فائدہ اٹھانے کے لیے پیاز ذخیرہ کرلی ہے۔

بہت سے تاجر پاکستان کی اعلیٰ درجے کی پیاز برآمد کرکے ملکی طلب پوری کرنے کے لیے افغانستان اور ایران سے اوسط درجے کی پیاز درآمد کر رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں بھی زرِ مبادلہ کے ذخائر پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔

پیاز کے بحران سے عام صارفین بھی پریشان ہیں اور کاشت کار بھی الجھن کا شکار ہیں۔ فائدے میں صرف برآمدی تاجر یا آڑھتی ہیں۔ عوام کو ایسی درآمد شدہ پیاز کھانے کو مل رہی ہے جس میں لذت اور غذائیت دونوں کی کمی ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ سب سے زیادہ خسارے میں کاشت کار ہیں۔ انہیں ان کی محنت کا پورا پھل نہیں مل پارہا۔

فلاحی انجمن ہول سیل ویجیٹیبل مارکیٹ کے صدر حاجی شاہ جہاں کا کہنا ہے کہ حکومت کو 10 سے 15 دن کے لیے پیاز کی برآمد پر پابندی عائد کرنی چاہیے۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*