مچھر کالونی میں ٹیلی کام کمپنی کے دو ملازمین کی ہلاکت کس کے اشارے پر ہوئی
بچوں کا اغواء
خونی افواہ

رپورٹ : عارف اقبال


28 اکتوبر 2022 کراچی کے علاقے ماری پور مچھر کالونی میں عوام نے مبینہ دو اغوا کاروں کو پکڑا اور انہیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے موت کے نیند سلادیا واقع کے مطابق ڈاکس تھانے کی حدود مچھر کالونی جنگل الہی مسجد کے قریب طارق روڈ میں واقع موبائل کمپنی نے مزکورہ مقام پر لگا ٹاور کی فریکوئنسی چیک کرنے کے لیئے اپنے انجینئر ایمن جاوید کو بھیجا انجینئر ایمن جاوید کمپنی کی گاڑی نمبر ALB 946 ڈرائیور اسحاق پنہور کے ہمراہ مذکورہ کار میں بیٹھ کر مچھر کالونی TCF اسکول کے قریب پہنچا لیکن کچے رستے اور گنجان آبادی کی وجہ سے وہ موبائل ٹاور کے قریب نہیں پہنچ پارہا تھا جس کی وجہ سے وہ دونوں کافی دیر سے اس علاقے کی گلیوں میں بھٹک رہے تھے دیر تک مذکورہ مقام پر پھرنے کی وجہ سے وہ وہاں کے مکینوں کی نظر میں آگئے تھے اور علاقے میں جان پہچان نا ہونے کی وجہ سے موبائل کمپنی کے نمائندوں کے خلاف چہ میگوئیاں ہونے لگیں لیکن حقیقت جاننے کے لیئے علاقے کا کوءبھی شخص ان کے پاس نہیں جارہا تھا اس دوران جب انجینئر ایمن جاوید اور ڈرائیور سجاد گاڑی گھما گھما کر تھک گئے تو دونوں کار سے اتر کر اس کے ساتھ ہی کھڑے ہوگئے اور اپنے قریب سے جاتے ہوئے ایک بچے سے مذکورہ مقام کے بارے میں پوچھا ابھی انجینئر ایمن جاوید اس بچے سے بات کرہی رہا تھا کہ قریب موجود ایک شخص نے شور مچادیا کہ علاقے میں بچوں کو اغوا کرنے کی نیت سے گھومنے والے لوگ ایک بچے کو اغوا کرنے کی کوشش کررہے ہیں

اس شور کی وجہ سے قریب و دور میں موجود نوجوان اور دیگر افراد ان کے پاس پہنچے اور بلا تحقیق ان کو تشدد کا نشانہ بنانے لگے یہ شور جنگل میں آگ کی طرح پھیلی اور اس دوران علاقے کے سیکڑوں افراد جائے وقوعہ پر پہنچے اور بلا تحقیق ان دونوں افراد پر لاٹھی ڈنڈے اور بڑے بڑے پتھر برسانے لگے جس کے نتیجے میں دونوں مبینہ اغوا کار موقع پر ہی جانبحق ہوگئے اس دوران ڈاکس پولیس کو واقعہ کی اطلاع ملی جس پر پولیس فوری کارواءکرتی ہوءجا ئے وقوعہ پر پہنچی اور بڑی مشکلوں سے ہجوم کو منتشر کرتے ہوئے مبینہ اغوا کاروں تک پہنچی لیکن اس وقت تک یہ دونوں افراد عوام کی بہیمانہ تشدد کو برداشت نہ کرتے ہو جہان فانی سے کوچ کرچکے تھے تاہم پولیس نے دونوں مقتولین کی نعش تحویل میں لیتے ہوئے قانونی کارواءکے لیئے سول اسپتال منتقل کیا جس کے بعد پولیس نے تفتیش کا اغاز کیا جس میں یہ بات واضع ہوءکہ مذکورہ افراد اغوا کار نہیں بلکہ یہ ایک موبائل کمپنی کے انجینئر ایمن جاوید اور ڈرائیور سجاد پنہور تھے جن کو مچھر کالونی میں بچوں کے اغوائ کاروں کے شبے میں مشتعل عوام نے حملہ کردیا پولیس کے مطابق مشتعل افراد نے تشدد کرکے دو ملازمین کو ہلاک کرنے کے بعد انکی نعشیں جلانے کی کو شش کی اس موقع پر آنیوالے پولیس اہلکاروں کو بھی عوام نے زدوکوب کیا مشتعل افراد نے مقتولین کی گاڑی بھی نزر آتش کردی تھی شرپسندوں نے جھوٹی افواہ پھلائی کہ دو اشخاص گاڑی پر بچوں کو اغوائ کر نے کی کوشش کررہے ہیں جس پر عوام الناس مشتعل ہوگئی جنہوں نے لاٹھی ڈنڈوں اور پتھروں سے مار مار کر ہلاک کردیا پولیس کے مطابق علاقہ مکینوں کی جانب سے ملزمان کی لاشوں کوجلانے کی کوشش کی گئی جبکہ ان کی کارALB-946 کو بھی آگ لگا دی مقتولین کی شناخت محمد ایمن جاوید ولد سعید جاوید اور.محمد اسحاق پنہور ولد محمد ہارون کے نام سے ہوئی جو ایک ٹیلی کام کمپنی کا انجینئر تھا اور دوسرا ڈرائیور تھا،ان کے پاس اسلام آباد نمبر کی گاڑی تھی اور ابتدائی تفتیش کے مطابق متوفیان ایک پرائیویٹ ٹیلی کام کمپنی کے ملازم تھے جوکہ موبائل ٹاور کی فیریکوئنسی چیک کرنے کی غرض سے ائے تھے اس موقع پر ایس ایس پی کیماڑی کا کہنا تھا کہ یہ پسماندرہ علاقہ ہے ،افواپھیلائی گئی کہ بچوں کو اغواکیا جارہاہے تو لوگوں کے ہجوم نے دونوں افراد پر حملہ کردیا۔ایس ایس پی فدا حسین جانوری نے کہا کہ مقدمہ درج کرنے کے بعد میرٹ پر تحقیقات کی جائیں گی اور ابتداءتفتیش میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ مچھر کالونی میں عوام کے تشدد سے ہلاک ہونیوالے موبائل کمپنی کے ملازمین کا قیمتی سامان بھی لوٹ لیا گیا مقتولین کے زیر استعمال کوئی بھی قیمتی چیز نہیں ملی مچھرکالونی میں افواہ کس نے پھیلائی اور ابتداءتفتیش میں پولیس کو یہ بھی معلوم ہوا کہ کار سوار افراد کو لوٹنے کی کوشش کی گئی مقتولین کا لیپ ٹاپ، کٹ بیگ ، موبائل فون پہلے چھینے گئے مقتولین کے شور مچانے اور گاڑی سے باہر آنے پر ڈاکووں نے چور چور کا شور مچایا شور سن کر علاقہ مکین جمع ہوئے اور دونوں کمپنی ملازمین کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا موقع پر پہنچنے والی پہلی پولیس موبائل کو علاقہ مکینوں نے بتایا کہ یہ ڈکیت ہیں پولیس کے استفسار کہ کار میں ڈکیت کیسے آئیں گے؟ جبکہ پولیس کو شواہد ملے ہیں کہ علاقے میں ویگن کار میں آنیوالے کمپنی ملازمیں نے کار روک کر ایک بچے سے ایڈریس معلوم کررہے تھے قریب موجود ایک باریش شخص نے شور مچادیا کہ بچے کو اغوائ کیا جارہا ہے جس پر مذکورہ مقام پر لوگوں کا جم غفیر جمع ہوگیا تاہم پولیس نے قانونی کارواءکے بعد مقتولین کی نعشیں ورثا کے حوالے کردی اس موقع پر مقتولین کے قریبی عزیزوں نے بتایا کہ عوام کے تشدد سے جاں بحق ہونیوالا انجینئر محمد ایمن جاوید ٹھٹھ کا رہائشی تھا اور سندھ یو نیورسٹی سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تھی جبکہ مقتول ایمن کے والد سعید جاوید ٹھٹھہ کے سینئر صحافی ہیں محمد ایمن جاوید چار بھائیوں اور ایک بہن میں سب سے چھوٹا اور غیر شادی شدہ تھا وہ نارتھ کراچی میں اپنے رشتے داروں کے ساتھ رہتا تھا اور دو ماہ قبل موبائل کمپنی میں بطور انجینئر کام کررہا تھا جبکہ مقتول ڈرائیور اسحاق پنہور نو شہرو فیروز کا رہائشی اور تین بچوں کا باپ تھا جبکہ پانچ بھائیوں اور بیوہ والدہ کا کفیل تھا مقتول چھ ماہ سے موبائل کمپنی میں ملاز مت کررہا تھا پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق عوام کے تشدد سے دونوں مقتولیں کی جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں پولیس زرائع کے مطابق اس علاقے مین اس سے پہلے بھی اس قسم کے واقعات ہوچکے ہیں رواں ماہ بائیس جولائی کو علاقے میں ڈکیتی کے دوران مکینوں نے دو ڈکیتوں کو شناخت کرلیا بعد میں علاقے کے رہائشی ایک ڈکیت رفیق کو اسکے گھر سے نکال کر اسکی ماں کے سامنے تشدد کرکے ہلاک کیا گیا تھا مچھر کالونی میں ٹیلی کام کمپنی کے ملازمین کو ہجوم کی جانب سے تشدد کرکے قتل کرنے کا مقدمہ الزام نمبر 602/22 مقتول اسحاق کے چچا محمد یعقوب کی مدعیت میں قتل،دہشت گردی سمیت دیگر دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے ،مقدمے میں قتل، انسداد دہشت گردی سمیت دیگردفعات شامل کی گئی ہیں۔ایف آئی آر کے مطابق مقتولین کے زیر استعمال گاڑی کو توڑنے کے بعد مشتعل افراد کی جانب سےآگ لگا دی گئی۔پولیس حکام کے مطابق مقدمہ میں 15 ملزمان اور 200 سے 250 نامعلوم افراد کو نامزد کیا گیا ہے۔نامزد ملزمان میں محمد حسین ، عثمان ، مالک ، رحمت ، مصطفیٰ، رشید بنگالی ، عبدالغفور ، نور افسر ،ربیع السلام ، محمد فاروق ، فیصل ، عرفان ، شہزاد ، رزاق عرف کالو اور ایم رفیق شامل ہیں۔مقدمہ میں کہا گیا کہ اسحاق اپنے انجینیئر ایمن جاوید کے ساتھ سگنل ٹیسٹنگ کے لیے مچھر کالونی آیا ،دونوں افراد کو 200سے 250افراد نے پتھروں ڈنڈوں،بلاکوں سے تشدد کرکے قتل کیا اور استعمال گاڑی کو توڑ پھوڑ کرکے مشتعل افراد نے آگ لگادی۔واضح رہے کہ کراچی کی مچھرکالونی میں ٹیلی کام کمپنی کے بہیمانہ طریقے سے قتل ہونے والے دونوں ملازمین علاقے میں موبائل فونز سگنلز چیک کرنے آئے تھے، ایک بچے سے راستہ پوچھا تو لوگوں نے اغوا کار سمجھ کر ڈنڈوں، پتھروں، لاتوں اور گھونسوں سے اتنا مارا کہ دونوں موقع پر ہلاک ہوگئے۔ابتدائی طور پرپولیس کا کہنا تھا کہ لوگوں کا کہنا ہے کہ دونوں افراد بچوں کو اغوا کرنے کی کوشش کر رہے تھے جنہیں رنگے ہاتھوں پکڑا اور پھر تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ماڑی پور روڈ مچھر کالونی میں سیلولر کمپنی ے2 ملازمین کو مبینہ طور پر ڈاکو قرار دے کر بہیمانہ قتل کی تحقیقات میں نیا انکشاف ہوا کہ ملازمین پر تشدد میں ملوث بیشتر ملزمان پاکستانی شہری ہی نہیں ہیں،

واقعے کے بعد گلیاں ویران ہیں۔

گرفتار ملزمان کے پاس قومی شناختی کارڈ بھی موجود نہیں، زیر حراست اور گرفتار افراد کے خلاف فارن ایکٹ کے تحت کارروائی پر غور کیا جابچوں کے اغوائ کار کے شبے میں شہریوں کے تشدد سے 2 افراد کے بے دردی سے قتل کے واقعے کے عینی شاہد نے انکھوں دیکھا حال بتایا مچھرکالونی میں شہریوں کے تشدد سے 2 افراد کے واقعے کے زخمی عینی شاہد پولیس اہلکار کا بیان سامنے آیا کہ ہم لوگ انسدادپولیو ٹیم کے ساتھ موجود تھے، آگے ایک دم بھگدڑ مچ گئی، لوگوں نے بتایایہاں پر بچے اغواکرنے والے آئے ہیں پولیس اہلکار نے کہا کہ ہم جس گلی میں تھے اس کے برابر والی گلی میں یہ واقعہ ہوا، وہاں جا کر دیکھا تو ہمارے پولیس والوں کو بھی عوام مار رہی تھی، بیچ بچاو کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے پتھراو کیا، میرے سر پر پتھر لگا جس سے میں شدید زخمی ہوگیا عینی شاہد کا کہنا تھا کہ زخمی پولیس اہلکار نے مزید بتایا کہ میں نے کوشش کی ان کو بچانے کی جیسے مجھے بلاک لگا ویسے ہی مقتولین کو بھی اینٹیں اور بلاک مارا گیا، 150کے قریب لوگ تھے 2 بلاک میری کمر پر مارے گئے جبکہ زرائع کی اطلاع کے مطابق مچھر کالونی مین عوام کے تشدد سے ہلاک ہونیوالے موبائل کمپنی کے ملازمین کا قیمتی سامان بھی لوٹ لیا گیا مقتولین کے زیر استعمال کوئی بھی قیمتی چیز نہیں ملی مچھرکالونی میں افواہ کس نے پھیلائی پولیس نے تفیش کی تو معلوم ہوا کہ کار سوار افراد کو لوٹنے کی کوشش کی گئی مقتولین کا لیپ ٹاپ، کٹ بیگ ، موبائل فون پہلے چھینے گئے مقتولین کے شور مچانے اور گاڑی سے باہر آنے پر ڈاکووں نے چور چور کا شور مچایا شور سن کر علاقہ مکین جمع ہوئے اور دونوں کمپنی ملازمین کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنانا شروع کیا موقع پر پہنچنے والی پہلی پولیس موبائل کو علاقہ مکینوں نے بتایا کہ یہ ڈکیت ہیں پولیس کے استفسار کہ کار میں ڈکیت کیسے آئیں گے؟ پولیس کے مطابق شواہد یہ ملے ہیں کہ علاقے میں ویگن آر کار مین آنیوالے کمپنی ملازمیں نے کار روک کر ایک بچے سے ایڈریس معلوم کررہے تھے قریب موجود ایک باریش شخص نے شور مچادیا کہ بچے کو اغوائ کیا جارہا ہے عوام کے تشدد سے جاں بحق ہونیوالا انجینئر محمد ایمن جاوید ٹھٹھ کا رہائشی تھا سندھ یو نیورستی سے انجینئرنگ کی تھی اسکے والد سعید جاوید ٹھٹھہ کے سینئر صحافی ہیں محمد ایمن جاوید چار بھائیوں اور ایک بہن مین سب سے چھوٹا اور غیر شادی شدہ تھا وہ نارتھ کراچی مین رشتے داروں کے ساتھ رہتا تھا جبکہ مقتول ڈرائیو اسھاق پنہوار نو شہرو فیروز کا رہائشی تین بچوں کا باپ تھا چھ ماہ سے ملاز مت کررہا تھا پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق عوام کے تشدد سے دونوں مقتولیں کی جسم کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں پولیس زرائع کے مطابق اس علاقے مین اس سے پہلے بھی اس قسم کے واقعات ہوچکے ہیں رواں ماہ بائیس جولائی کو علاقے میں ڈکیتی کے دوران مکینوں نے دو ڈکیتوں کو شناخت کرلیا بعد مین علاقے کے رہائشی ایک ڈکیت رفیق کو اسکے گھر سے نکال کر اسکی ماں کے سامنے تشدد کرکے ہلاک کیا تاہم مچھر کالونی میں ہجوم کے ہاتھوں ٹیلی کام کمپنی کے 2 ملازمین کی ہلاکت کے خلاف کمپنی ملازمین نے مقتولین کے دوستوں اور عزیز و اقارب کے ہمراہ کراچی پریس کلب کے باہر احتجاج کیا۔مظاہرین کا کہنا تھا کہ ایک ٹولے نے بلاجواز دونوں ملازمین پر جھوٹا الزام لگاکر انھیں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا جس کے نتیجے میں دونوں ملازمین موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔مظاہرین نے کہا کہ ملزمان نے اسحاق اور ایمن جاوید کو اینٹیں ، ڈنڈے اور پتھرمار کر قتل کیا، پولیس آنے کے باوجود مقتولین کو ڈکیت اور اغوا کار بتایا گیا۔شرکائ کا کہنا تھا کہ پولیس نے لاشیں تحویل میں لیکر اسپتال پہنچائیں کچھ ہی دیر میں مقتولین کی شناخت کے بعد معلوم ہوا کہ مرنے والوں میں نجی کمپنی کاانجینئر اور ڈرائیور شامل ہیں، جبکہ علاقے کی ایک خاتون شہری سمودا نے نمائندہ کو بتایا کہ جمعہ والے دن ایک کار علاقے میں آءاور پھر شور ہوا کہ علاقے میں بچہ پکڑنے والا آیا ہے اس شور کی وجہ سے علاقے کے بہت سارے لوگ اس گاڑی کے گرد جمع ہو گئے اور اس گاڑی کی تلاشی لینے لگے یہ صورتحال دیکھ کر قریبی مسجد میں موجود مولانا نے کار والے سے کہا کہ آپ مسجد کے اندر مدرسے میں اجاو جس پر دیگر لوگوں نے بھی کہا کہ آپ مدرسے کے اندر چلے جاو اور اپنی شناخت کرواو ہم لوگ آپ کو چھوڑ دینگے لیکن وہ لوگ مسجد کے اندر نہیں جارہے تھے اور اس کے بعد بہت سارے لوگوں نے ان پر حملہ کردیا جس کے بعد یہ حادثہ پیش آیا اب ہم خواتین جب بھی جائے وقوعہ سے گزرتے ہیں تو ان مقتولین کی روح کی ایصال کے لیئے یہاں فاتحہ خوانی کرتے ہیں اور ہم علاقے والے اللہ سے اس گناہ کی معافی طلب کرتے ہیں جبکہ علاقے کے ایک اسکول ٹیچر طاہر اشرف نے بتایا کہ واقعہ کے وقت میں اپنے ادکول میں بیٹھا تھا کہ خبر ملی کہ علاقے کے نوجوانوں نے دو اغواکار کو پکڑا ہے اور انہیں تشدد کا نشانہ بنارہے ہیں جس پر میں بھی اپنے اسکول سے باہر نکلا اور جائے وقوعہ پر پہنچا تو مبینہ اغواکاروں کی ہلاکت کی اطلاع ملی جبکہ پولیس نے فوری چھاپہ مار کارواءکرکے مچھر کالونی میں پرتشدد کارروائیوں اور ٹیلی کام کے دو ملازمین کے قتل میں ملوث مرکزی ملزم سمیت 40 ملزمان کو پولیس گرفتار کر چکی ہے۔ڈی آئی جی ساوتھ عرفان علی بلوچ نے کہا کہ ڈاکس تھانے کی حدود مچھر کالونی میں پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں ٹیلی کام کے 2 ملازمین کو شک کی بنیاد پر ہجوم نے اتنا مارا کہ دونوں جاں بحق ہوگئے ان کے پتھر مار کر سر کچل دئیے گئے۔

دونوں نوجوان سندھی زبان بولتے تھے،ماڑی پور روڈ پر جئے سندھ اور جسقم سمیت دیگر قوم پرست جماعتوں کے کارکنوں نے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے روڈ بند کر دی۔جس کے نتیجے میں اطراف کی گلیوں سمیت ہاکس بے روڈ تک بدترین ٹریفک جام ہوگیا،ڈی آئی جی ساوتھ عرفان علی بلوچ اور ایس ایس پی کیماڑی فدا حسین جانوری کی ہدایات پر ڈی ایس پی عمران جاگیرانی موقع پر پہنچ گئےمظاہرین کو بتایا کہ پولیس اب تک قتل کے مرکزی کردار شریف عرف شرفو/ شفو سمیت 40 ملزمان کو گرفتارکر چکی ہے۔ مزید گرفتاریاں بھی متوقع ہیں۔ماڑی پور روڈ مچھر کالونی میں سیلولر کمپنی ے2 ملازمین کو مبینہ طور پر ڈاکو قرار دے کر بہیمانہ قتل کی تحقیقات میں نیا انکشاف ہوا کہ مقتولین پر تشدد میں ملوث بیشتر ملزمان پاکستانی شہری ہی نہیں ہیں، گرفتار ملزمان کے پاس قومی شناختی کارڈ بھی موجود نہیں، زیر حراست اور گرفتار افراد کے خلاف فارن ایکٹ کے تحت کارروائی پر غور کیا جا رہا ہے۔اس ضمن میں ایس ایچ او تھانہ ڈاکس پرویز علی سولنگی نے بتایا کہ نجی ٹیلی کام کمپنی کے ملازمین پر تشدد میں ملوث بیشتر افراد پاکستان میں غیر قانونی طور پر مقیم ہیں، کمپنی ملازمین پر تشدد میں ملوث بیشتر افراد کا نادرا ریکارڈ موجود نہیں،گرفتار ملزموں کے بھی شناختی کارڈ موجود نہیں ہیں،جبکہ شامل تفتیش زیر حراست 13 مشکوک افراد کے پاس بھی قومی شناختی کارڈ نہیں ہیں ، گرفتار ملزمان کے خلاف فارن ایکٹ کے تحت کارروائی پر غور شروع کر دیا گیا ہے۔دوسری جانب ایس ایس پی کیماڑی فدا جانوری کا کہنا تھا کہ دونوں افراد ٹیلی کام کمپنی کے ملازم تھے، واقعے کی تمام پہلوں سے تفتیش کی جا رہی ہے، نوجوانوں کے قتل میں ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ جبکہ مچھر کالونی ہجوم کے تشدد سے 2 افراد کی ہلاکت پر چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ جسٹس احمد علی شیخ کے نوٹس اور طلبی پر ا?ئی جی سندھ غلام نبی میمن و دیگر افسران نے رپورٹ عدالت میں پیش کردی۔ اس موقع پر ڈی ا?ئی جی ساو¿تھ عرفان بلوچ اور ایس ایس پی کیماڑی بھی عدالت میں پیش ہوئے آئی جی سندھ غلام نبی میمن نے عدالت میں پیش ہونے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مچھر کالونی واقعے میں نامزد 15 ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔ 4 کی شناخت پریڈ ہوچکی ہے، دیگر کی بھی کرائیں گے اور کیس کا چالان پیش کر کے ملزمان کو سزا دلوائیں گے انہوں نے کہا کہ پیش امام کے حوالے سے تحقیق کی ہے، ان کا مثبت کردار تھا۔ پیش امام نے مقتولین کو تشدد سے بچانے کی کوشش کی۔ علاقے میں افواہ تھی کہ بچے اغوا ہورہے ہیں مگر شواہد نہیں ملے۔ ا?ئی جی سندھ نے کہا کہ گرفتار ملزمان میں بیشتر کے پاس پاکستانی شناختی کارڈ موجود ہے۔ جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں، وہ علیحدہ معاملہ ہے، ان کے خلاف کارروائی ہوگی آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ احتجاج کا حق سب کو ہے مگر قانون کے دائرے میں رہنا لازمی ہوتا ہے، جو مقدمہ درج کیا گیا ہے اس میں اسٹیٹ کے خلاف بات کی گئی ہے۔ پولیس کا بنیادی کام عوام کے جان و مال کی حفاظت ہے، اس سے بری الذمہ نہیں ہوسکتے۔ پولیس عوام کی مدد کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتی۔ کوئی بھی واقعہ ہو تو 15 کو ضرور اطلاع دیں۔انہوں نے کہا کہ پراسیکیوشن کے ذریعے ملزمان کو سزا دلوانے کے لیے بہت کام ہورہا ہے۔ تفتیش کو بہتر بنانے کے لیے بھی مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔واضح رہے کہ چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ نے مچھر کالونی میں مشتعل ہجوم کے تشدد سے نجی کمپنی کے 2 ملازمین کی ہلاکت کے واقعے کا نوٹس لیا تھا۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*