صدر نے الیکشن کا اعلان تو کر دیا، انتظامات ہوتے نظر نہیں آ رہے

اسلام آباد : اگرچہ الیکشن کمیشن کی تجویز کے ساتھ صدر عارف علوی نے پنجاب اسمبلی کے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے لیکن حکومت، عدلیہ اور فوج کے سست رویے کی وجہ سے الیکشن کے انتظامات ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ دو صوبوں میں الیکشن کرانے کیلئے الیکشن کمیشن نے حکومت سے 20؍ ارب روپے طلب کیے ہیں لیکن حکومت یہ رقم جاری نہیں کرنا چاہتی۔

کمیشن کے ذریعے نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ اب تک حکومت نے صرف پانچ ارب روپے جاری کیے ہیں جو ناکافی ہیں۔ قبل از وقت اسمبلیاں تحلیل کرنے کی وجہ سے انتخابی اخراجات میں اضافہ ہوا ہے۔ 

اس سے قبل الیکشن کمیشن نے اس تاثر کے تحت انتخابی اخراجات کا حساب لگایا تھا تمام صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستوں پر بیک وقت الیکشن ہوں گے تو یہ اخراجات 47؍ ارب روپے ہوں گے۔ لیکن یہ رقم دو اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد بڑھ کر اب 61؍ ارب روپے ہوگئی ہے۔ 

الیکشن کمیشن کو فی الوقت 20؍ ارب روپے درکار ہیں لیکن سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معاشی مسائل میں پھنسے ملک کی وفاقی حکومت یہ رقم کب جاری کرے گی۔

 الیکشن کرانے کیلئے لگتا ہے کمیشن بیوروکریسی پر بھروسہ نہیں کرتی کیونکہ یہ انتہائی زیادہ سیاست زدہ ہو چکی ہے اور ایسے میں بیوروکریسی کو اس کام میں ذمہ داری دینا دھاندلی کا ایک نیا تنازع پیدا کر سکتا ہے جس کے نتیجے میں شفاف انتخابات کرانے کی پوری کوشش بیکار جائے گی۔ یہ سب اس وقت ہو رہا ہے جب پوری بیوروکریسی میں رد و بدل کیا گیا ہے تاکہ سیاست دانوں کے ساتھ بیوروکریٹس کے مقامی سیاسی روابط کو توڑا جا سکے۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ ہفتے قبل چیف الیکشن کمشنر نے چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات کی تھی تاکہ ہائی کورٹس پر اثر رسوخ استعمال کرکے ضلعی عدالتوں سے ریٹرننگ افسران حاصل کیے جا سکیں۔

 ذریعے کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ان کا ہائی کورٹس پر اثر رسوخ نہیں ہے کیونکہ عدالتیں اپنے فیصلوں میں آزاد ہیں لیکن اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ وہ ہائی کورٹس کے متعلقہ چیف جسٹسز کو یہ پیغام پہنچائیں گے۔ اس کے بعد کمیشن نے لاہور اور پشاور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسز کو خط لکھے تاہم عدالتوں کی جانب سے ججز کی خدمات کی فراہمی سے انکار پر کمیشن کو مایوسی ہوئی۔ 

یہ واضح نہیں کہ ایسی صورتحال میں کمیشن کیا کرے گا۔ آئین کے آرٹیکل 220؍ کے تحت تمام وفاق اور صوبوں میں ایگزیکٹو حکام کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کمیشن کی معاونت کریں۔ تاہم، اس آرٹیکل کا اطلاق عدلیہ پر نہیں ہوتا۔ فوج اور پیرا ملٹری فورسز کی تعیناتی بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ 

الیکشن کمیشن کو بھیجی گئی رپورٹس میں دونوں صوبوں کے پولیس چیفس نے چیلنجز کا ذکر کرتے ہوئے یہ کہا ہے کہ دیگر فورسز کی غیر موجودگی میں وہ الیکشن کے پرسکون انداز سے انعقاد کو یقینی نہیں بنا سکیں گے۔ 

پنجاب میں پولیس فورس کی تعداد کم و بیش دو لاکھ کے قریب ہے۔ صوبے کے ایک سینئر پولیس افسر نے دی نیوز کو بتایا کہ پولیس فورس مختلف مقامات پر ڈیوٹیز میں مصروف ہے لہٰذا یہ تعداد کافی نہیں ہے۔

 10؍ ہزار پولیس والے چائنیز شہریوں کی سیکورٹی کیلئے تعینات ہیں جبکہ تقریباً اتنی ہی تعداد کچے میں جاری آپریشن میں مصروف ہے جبکہ سات ہزار پولیس والے حساس تنصیبات پر حفاظت کیلئے تعینات ہیں جنہیں ان ڈیوٹیز سے ہٹایا نہیں جا سکتا۔

 40؍ ہزار پولیس والوں کو ڈیجیٹل مردم شماری پر لگایا گیا ہے، زیادہ سے زیادہ ایک لاکھ پولیس والوں کو ڈیوٹی پر لگایا جا سکتا ہے اور ایسی صورت اگر الیکشن کرانا ہیں تو تقریباً 3؍ لاکھ فوجیوں اور پیرا ملٹری والوں کی ضرورت ہوگی۔ 

فوج پہلے ہی اپنے اہلکار الیکشن ڈیوٹی کیلئے دینے سے انکار کر چکی ہے کیونکہ کے پی اور بلوچستان میں آپریشن جاری ہے۔ یہ دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن آرٹیکل 220؍ کے تحت فوجیوں کی خدمات حاصل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*