سیکورٹی کی خامیوں کا اعتراف

دہشتگرد حملے سے انٹیلی جنس کی کمزوریاں سامنے آئیں،واقعے سے اآنکھیں کھل جانی چاہیئیں، کے پی او کے ندر خامیاںتھیں، انتظامات کا پھر جائنزہ لینا ہوگا، مراد علی شاہ

تھریٹ الرٹ تھا ، جس کا ہم سب کو پتہ تھا اور ہر جگہ کو محفوظ کرنے کی ہم نے کوشش کی تھی لیکن پھر بھی کے پی او پر حملہ ہوگیا ،حساس عمارتوں کی چھتوں پر اہلکار تعینات کرنے چاہئیں، وزیراعلیٰ سندھ

ہمارے پاس ایک رواج بن گیا ہے کہ لوگ ہتھیار اٹھا کر گھوم رہے ہوتے ہیں۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ہر یونیفار پہنا ہوا شخص ہتھیار نہیں اٹھا سکتا،ا±س کو ہم نے پہلے بھی روکا ہے اور اب بھی روکیں گے

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس واقعے نے ہم سب کو ہلاکر رکھ دیا ہے لیکن اس سے دہشتگردوں کو ختم کرنے ہمارا جذبہ اور زیادہ مضبوط ہوگیاہے، انٹیلی جنس بہتر بنانے پر کام کررہے ہیں، اسمبلی میں خطاب

کراچی (کرائم رپورٹر ) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے 17 فروری کو کراچی پولیس آفس حملے پر اسمبلی کے فلور پر پالیسی بیان دیتے ہوئے نہ صرف اب تک ہونے والی تحقیقات کی تفصیلات بتائیں بلکہ آئندہ کے سکیورٹی پلان کے حوالے سے بھی آگاہی دی۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ 17 فروری تقریباً شام 7:10منٹ پر دہشتگردوں نے کراچی پولیس آفس پر حملہ کیا۔انہوں نے حملے اور اس کے تدارک کے حوالے سے اٹھائے گئے اقدامات اورکامیاب آپریشن کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کچھ انٹیلیجنس کمزوریاں بھی سامنے آئیں کہ اتنے اسلحے ، خود کش جیکٹ کے ساتھ یہ لوگ کس طرح کراچی میں داخل ہوئے۔انہوں نے کہا کہ سیکوریٹی کے حوالے سے لوگوں نے بھی سوال اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے یہ بتاتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ سارے پاکستانی پولیس والے وہاں موجود تھے یعنی ہر زبان سے تعلق رکھنے والے پولیس اہلکار موجود تھے ، پولیس افسر،ہماری رینجرز بھی وہاں اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے موجود تھے۔ پاکستان آرمی کے اسنائپر ہم نے ساتھ کی بڑی عمارتوں پر تعینات کردیئے تھے اور وہ پوری طرح تیار تھے۔ جب خدشات بڑھنے لگے تو ہم نے پاکستان نیوی سے دو ہیلی کاپٹر کا کہا جو کہ ہمارے پاس نہیں تھے۔ انہیں بھی استعمال کرنے کی کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ا±س سے پہلے ہی پولیس، رینجرز اور آرمی کی کارروائی سے وہ تینوں جہنم واصل ہوئے۔ اس پورے واقعہ میں ہمارے بھی پانچ لوگ شہید ہوئے۔انہوں نے کہا کہ اس وقت 6 سے 7 لوگ زیر علاج ہیں، باقی دیگر کومکمل علاج کے بعد ڈسچارج کردیاگیا ہے۔۔ سی ٹی ڈی کو تفتیش کے لیے کہاگیاہے ور ڈی آئی جی کی سربراہی میں ایک جے آئی ٹی بنائی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ جتنی بھی پیشرفت ہوئی ہے میں اس وقت شیئر کرنا نہیں چاہوں گا کہ اب تک کیا کتنی پیشرفت ہوئی ہے۔ ہمارے سراغ لگانے کا سسٹم اچھا ہے۔ بس ایک واقعہ ایسا ہوا جس کا ہم سراغ نہ لگا سکے اور وہ تھا شیزور پر ہینڈ گرنیڈ پھینکے کا اس کے علاوہ جو بھی دہشتگردی کے واقعات رونما ہوئے ہیں ا±ن کا سراغ لگایاجاچکاہے۔ اس واقعے کی ذمہ داری بھی تحریک طالبان پاکستان نے قبول کرلی ہے۔ انشااللہ تعالیٰ ہم اس کی تہہ تک ضرور پہنچیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس واقعے نے ہم سب کو ہلاکر رکھ دیا ہے لیکن اس سے ہمارا جذبہ جو کہ ان دہشتگردوں کو ختم کرنے کا ہے اور زیادہ مضبوط ہوگیاہے۔انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی کہوں گا کہ وہ لوگ جو چاہ رہے تھے کہ طالبان ادھر آئیں ،جنہوں نے اپنے منہ سے کہا تھا میں نے خود سنا تھا اپنے کانوں سے ، میں زیادہ تفصیل میں نہیں جاو¿ں گا ، میرے پاس بہت ساری معلومات ہیں ، وہ آج ذمہ دارہیں ان ساری چیزوں کے۔ مجھے معلوم ہے کہ اس وقت ہماری ملٹری اور سول ادارے دہشتگردوں کے خلاف متحد ہیں اور کہتے ہیں کہ ان سے بات نہیں کریں گے، انہیں گولی ماریں گے۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ہمیں اپنی ناکامیوں کا ذکر بھی کرنا چاہیے کہ کراچی جیسے شہر میں کیوں ایسا واقعہ پیش آیا۔ ہم نے بہت ب±رے دن دیکھے ہیں۔ 2014 سے 2015 تک بہت ب±رے حالات تھے۔۔ انہوں نے کہا کہ کراچی پولیس آفس کے اس واقعے سے ہماری آنکھیں کھل جانی چاہیں کہ ہمیں اب ہوشیار ہونا چاہیے۔ اور یہ سوال کہ پورا پاکستان عبور کرکے کراچی تک کیسے پہنچے ، اسلحہ بھی ان کے ساتھ تھا اور خودکش جیکٹس بھی۔ ہماری انٹیلیجنس اور بھی بہتر ہونی چاہیے تاکہ ہم انہیں روک سکیں۔ ہم کام کررہے ہیں۔ اسپیشل برانچ جو صوبے میں موجود ہے۔ اسپیشل برانچ کے لیے میں نے کافی جدید آلات ، ٹیکنیکل سپورٹ کے لیے کافی ساری چیزوں کی منظوری دے دی ہے اور ہم اس پرمزید کام کریں گے۔انہوں نے کہا کہ تھریٹ الرٹ تھا ، جس کا ہم سب کو پتہ تھا اور ہر جگہ کو محفوظ کرنے کی ہم نے کوشش کی تھی لیکن کے پی او کے اندر کچھ خامیاں موجود تھیں ،ان ساری عمارتوں کی چھتوں پر اہلکار تعینات کرنے چاہئیں۔ دوسری بات یہ ہمیں اپنی سیکوریٹی انتظامات کا ایک بار پھر جائزہ لینا ہوگا۔مختلف اجلاس میں ہم سیکوریٹی آڈٹ کرتے رہتے ہیں ، مگر اور بہتر کرنے کی پوری کوشش کریں گے اس واقعے سے اندازہ ہوتا ہے کہ کمزوری موجود تھی۔ ۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ہم پہلے ہی بات کرچکے ہیں مگر آج اس کو فارمولائز کرنے جارہے ہیں کہ ہم ایس او پیز جاری کریں گے۔ اگر مستقبل میں اس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑے تو مجھے ، آپ کو غرض کہ ہر شخص کو کیسے ریسپانس کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ جو گاڑی استعمال کی گئی تھی ، یہ چار مالک بدل چکی ہے۔ ابھی بھی اصلی مالک کے نام سے چل رہی ہے۔ دراصل اس میں ایسائز کا قصور نہیں اگر میں نہیں جا?ں گا اپنی گاڑی ٹرانسفر کے لیے تو مجھے زبردستی کون کہے گا۔ مگر ہم نے گاڑیاں ٹرانسفر کرنے کو اب لازمی قرار دینا ہے۔ ہمارے پاس ایک رواج بن گیا ہے کہ لوگ ہتھیار اٹھا کر گھوم رہے ہوتے ہیں۔ میں نے بہت بار منع کیا ہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ ہر یونیفار پہنا ہوا شخص ہتھیار نہیں اٹھا سکتا۔ ا±س کو ہم نے پہلے بھی روکا ہے اور اب بھی روکیں گے۔ اگر لوگ اس طرح ہتھیار اٹھاتے ہیں اور وہ سامنے سے گزر بھی جاتے ہیں تو دوسری بار کوئی نظر تک نہیں ڈالتا۔۔ اس پر میں پولیس کو ہدایت کرتاہوں کہ سخت نظر رکھیں۔انہوں نے کہا کہ میں خود کافی لوگوں کو روکا ہے جو ہتھیار بند اپنے ساتھ لے کر گھومتے ہیں۔پولیس کو میں سخت ہدایت دیتا ہوں کہ ایسی گاڑیوں کو جو ہتھیار بند بیٹھے گھومتے رہتے ہیں ا±ن کے خلاف سخت کارروائی کریں اور ان کی گاڑیوں کو ضبط کریں اور واپس نہیں دی جائیں۔مراد علی شاہ نے کہا کہ میں دہشتگردی کے خلاف اقدامات پر سب کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہوں۔ اور ایسے واقعات سے بچنے کے لیے ہمیں کچھ سخت اقدامات کرنے پڑیں گے۔ اور اس پر میں سب کا تعاون چاہوں گا۔آخر میں وزیراعلیٰ سندھ نے شہدا ئ کو سلام پیش کیا اور زخمیوں کی جلد صحتیابی کے لیے دعا کی اور جو غازیوں کو کو خراج تحسین پیش کیا۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*