
کراچی میں بارش کو ختم ہوئے ایک ہفتے سے زائد گزر گیا مگر شہر کے بیشتر علاقوں سے بارشوں کے بعد اب سیوریج کا پانی وبال جان بن گیا ہے۔
کراچی میونسپل کارپوریشن ہیڈ آفس کے پڑوس میں میریٹ روڈ پر واقع ہول سیل میڈیسن مارکیٹ کی کچھی گلی نمبر ایک اور گلی نمبر 2 سیوریج نالے میں بدل چکی ہیں۔ جہاں گٹر ابل کر سیوریج بائی پاس ہوکر دوسرے گٹر میں نکلنے کی ناکام کوشش کرتا ہے۔
ہول سیل کراچی فارما آرگنائزیشن کے جنرل سیکرٹری اسلم پولانی کے مطابق گزشتہ 15 دنوں سے وہ اپنی مدد آپ کے تحت پرائیویٹ طور پر گٹر کھلوانے کی بھرپور کوشش کر چکے ہیں مگر گٹرز بھاری بھرکم پتھر اور دیگر اشیاء ہونے کی وجہ سے انسانی ہاتھ کے لیے کام کرنا مشکل ہے۔

انہوں نے بتایا کہ گٹر کھلوانے کیلئے کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن کے ایم ڈی سے لے کر نچلے عہدے کے تمام افسران تک رابطے کر چکے ہیں۔ انہیں ویڈیوز بھیجی گئی ہیں فون پر بھی رابطے کیے گئے ہیں مگر ہر روز نئی یقین دہانیوں کے بعد رات آجاتی ہے اور اگلے دن پھر نئی کوششیں کرتے ہوئے ایک ہفتے سے زائد گزر گیا ہے مگر سیوریج صاف نہیں کیا جا سکا اور نہ ہی گٹر کھولے گئے۔
علاقے کے ایک بزرگ دکاندار نے بتایا کہ تحریک لبیک کے یونین کونسل چیئرمین یاسر اختری کی جانب سے بھی سیوریج نکلوانے کی کوشش کی جا رہی ہے مگر متعلقہ اداروں کی جانب سے گٹر نہیں کھولے جا رہے تاکہ ان کی قیادت کو ناکام ظاہر کیا جا سکے۔
دکانداروں نے بتایا کہ اس میڈیسن مارکیٹ سے سندھ نہیں بلکہ پاکستان کے مختلف شہروں کے لیے ادویات سپلائی کی جاتی ہیں۔ بیشتر ادویات سیوریج میں خراب ہو چکی ہیں۔
اسی طرح کی گھمبیر صورتحال کراچی کے معروف اردو بازار کی ہے جہاں کی گلیوں میں سیوریج بہتا دکھائی دے رہا ہے۔

اردو بازار میں جس جگہ پر سب سے زیادہ سیوریج ہے وہ گورنمنٹ گرلز اسکول کا گیٹ ہے جہاں سے صبح شام طلبا و طالبات گزر کر اسکول جاتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں کئی طالبات کے کپڑے خراب ہو جاتے ہیں یہی نہیں اس کے ساتھ ہی سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا سوبھراج اسپتال بھی ہے جہاں علاج کیلئے آنے والی خاص طور پر حاملہ خواتین کے لیے انتہائی مشکلات ہیں۔
دکانداروں نے بتایا کہ وہ اپنے طور پر پرائیویٹ طور پر کافی کوشش کر چکے ہیں مگر گٹرز کے اندر پتھر اور بوریاں ہونے کی وجہ سے سیوریج نکل نہیں پا رہا بلکہ دوسرے گٹر سے بائی پاس ہو کر ان گلیوں میں جمع ہوتا ہے اور پورا دن تعفن پھیلا رہتا ہے۔
