کراچی کی صحافت کے مرد قلندر”نادر شاہ عادل” بھی چل بسے؟


(پہلی قسط)

کراچی (آغاخالد)
نادر شاہ عادل صحافی تو اچھے تھے ہی وہ انسان بھی مثالی تھے مگرقسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ پھر بھی ساری زندگی کانٹوں پر بسر کی بس ایک یہ جملہ ہی خراج عقیدت کو کافی ہے کہ "رب دیاں رب ہی جاڑیں”اپنی والدہ کے بہت مداح تھے اور اپنی بلوچ قوم اور علاقے لیاری کی پس ماندگی پر دل گرفتہ رہتے وہ زندہ تھے تو اپنوں یا پرایوں نے ان کی قدر نہ کی مرگئے تو بھی اس ظالم زمانے کو کیا فرق پڑے گا ان کی روح میں بسا ان کا مسکن لیاری تعلیم سے دوری،منشیات کا گڑھ،جرائم کی آماج گاہ تھا اور اس دردناک ماحول سے یہ ہیرا نکل کر آیا رب نے اسے بڑی صلاحیتوں سے نوازا تھا اور انہوں نے پوری زندگی لیاری کو بدلنے اسے سنوارنے کے سپنوں کی نذرکردی صحافت کی سب سے بڑی کمائی ہر طبقہ فکر سے تعلقات کی استواری ہوتی ہے خصوصا طاقت ور طبقات سے جڑنا،شاہ جی کافقیرانہ مزاج تھا یوں تو وہ اس بالادست طبقے سے ناراض رہتے اور لیاری کی بدحالی کا انہیں ذمہ دار ٹھراتے مگر پھربھی جو تھوڑا بہت موقع ملتا وہ لیاری کو بدلنے کی فرمائش کرتے کبھی اپنے لئے کچھ نہ مانگا اسی لیاری نے انہیں زندگی کے بڑے کچوکے لگائے جب پی پی کی مدد اور اسٹبلشمنٹ کے کاندھوں پر سوار بے لگام گینگ وار نے ان کے گھر پر حملہ کیا ان کے بچے کو زخمی کردیا اور اس مہان انسان کی بے رحمی سے توہین کی تو اس دن شاہ جی درحقیقت اندر سے ٹوٹ گئے اور اس صدمے کو انہوں نے دل پر لے لیا اور اس کے بعد وہ ڈھیر ہوتے گئے، درحقیقت صدمات کانام ہی آدھی موت ہے یاکم از کم کشش ثقل سے مزین اس راہ داری کا نام ہی صدمہ ہے جو بندے کو تیزی سے موت کی طرف دھکیل تی ہے جو لوگ ہزاروں سال جیتے تھے شاید صدمے انہیں چھوکر نہ گزرتے ہوں گے،شاہ جی سے تعلق کی ابتدا تو یاد نہیں مگر سن 2000 ہزار میں روزنامہ خبریں کے کراچی سے اجراء میں ہماری مشترکہ نوکری دوستی کے مضبوط بندھن میں گندھ گئ جہاں شاہ جی جوائنٹ ایڈیٹر اور عظیم نذیر ریذیڈنٹ ایڈیٹر تھے شاہ جی اورعظیم نذیر کی پرزور سفارش پر مجھے ضیاء شاہد مرحوم نے کراچی اسٹیشن کا چیف رپورٹر مقرر کیا اس موقع پر بڑا افسوس ناک واقعہ بھی ہوا جس نے مجھے شاہ جی کے اور قریب کردیا ہوا کچھ یوں کہ "خبریں” کراچی کا مجھے چیف رپورٹر بنانے کے اجلاس میں ایڈیٹوریل بورڈ کے ساتھ بیوروچیف شاہد منصور عرف (بمبو) بھی تھے انہوں نے ضیاشاہد کے اس فیصلہ سے اختلاف کرتے ہوئے استعفی کا اعلان کردیا اور جواز پیش کیاکہ آغا مجھ سے جونئر ہے اور میری ماتحتی میں کام کرہاہے اب میں اس کی ماتحتی میں کیسے کام کرسکتا ہوں کامیابیو‍ کے گھوڑے پرسوار آمرانہ ذہن کے مالک ضیاشاہد یہ کیسے برداشت کرسکتے تھے انہوں نے شاہد منصور کو فورن کمرے سے نکل جانے اور استعفی جمع کروانے کا حکم دیا تو شاہ جی تڑپ اٹھے وہ مرد قلندر کیسے برداشت کرسکتاتھا کہ ایک سینیر ساتھی اس کی سفارش کی بھینٹ چڑھ جائے انہوں نے فورن مداخلت کرتے ہوئے ضیاشاہد کو بھی اپنے نپے تلے جملوں سے ٹھنڈا کیا اور شاہد منصور کی نوکری بچانے کے لئے تجویز پیش کی کہ ہم تجاتی صفحہ الگ کرے دیتے ہیں اور شاہد منصور صاحب کی اس شعبہ میں دسترس کافائدہ اتھاتے ہوےانہیں اس کا انچارج بنادیتے ہیں اور وہ براہ راست چیف ایڈیٹر کو جواب دہ ہوں گے یعنی باالواسطہ ایڈیٹر کو اس طرح شاہد منصورکی نوکری بھی بچ گئی اور مینے بھی چیف رپورٹر کاچارج لے لیا شاہ جی سے روز مرہ کے صحافتی امور میں ان سے سیکھنے کاجہاں موقع ملا وہیں انہیں سمجھنے اور قربتیں اور گہری ہوکر دوستی میں بھی بدل گئیں اس طرح شاہ جی مجھ جیسے نالائق سے اس قدر محبت کرنے لگے کہ وہ ادارہ کی ان کے لئے مختص گاڑی کو چھوڑکر روزانہ رات کو کام سے رخصتی پر میرے ساتھ موٹر سائکل پر صدر یاپریس کلب تک آتے چونکہ میں جوانی کے نشہ میں تیز موٹر سائکل چلاتا تھا تو وہ اپنے روایتی دھیمے لہجہ میں مجھے ڈانٹ ڈپٹ کرتے رہتے اور میں انہیں چھیڑنے کے لئے اور تیز کردیتا یہ سلسلہ سال بھر جاری رہا ایک روز صدر میں گاڑیوں کی بھیڑ میں اچانک سامنے ایک اونچے گٹرکا ڈھکن آگیا اور اس پر موٹر سائکل چڑھ کے توازن کھو بیٹھی تو شاہ جی زور زور سے کلمہ پڑھنے لگے موٹر سائکل گرنے سے تو بچ گئی مگر کونے میں کھڑے رکشے سے جاٹکرائی تاہم ہم دونوں محفوظ رہے شاہ جی مجھے بری طرح ڈانٹتے ہوے مجھ سے خفاہوکر پیدل ہی چل دئے مینے انہیں منانے کی بہت کوشش کی معافی بھی مانگی اور یہ بھی وعدہ کیاکہ آئندہ گاڑی تیز نہیں چلائوں گا مگر وہ روٹھے رہے اور میرے ساتھ مزید سفر کرنے سے انکار کردیامینے مایوس ہوکر موٹر سائکل اٹھائی اور کلب آگیا وہ دن مجھ پر بڑا بھاری گذرا میں دن بھرشرمندہ اور اپنے آپ کو کوستارہا رات کو بستر پربھی کانٹے چھبتے رہے صبح دفتر پہنچا تو انسانیت دوست شاہ جی وہی دل نشیں مسکراہٹ اپنے لبوں پر سجائے رپورٹنگ روم میں داخل ہوے مینے شرمندگی کا اظہار کرتے ہوے کھڑے ہوکر ہاتھ جوڑ لئے تو شاہ جی کارویہ ایسا ہوگیا کہ گویا کل کا سارا قصور ان کاتھا پھر سارے موجود رپورٹرزکو کل کا قصہ سناتے ہوے خود بھی محظوظ ہوئے لیکن قصہ کے آخرمیں سپاٹ لہجہ میں مجھے مخاطب کرکے بولے میاں خالد صاحب اب یہ میرا اٹل فیصلہ ہے کہ آپ کے ساتھ موٹرسائکل پرسفر نہیں کروں گا میرے لئے یہی کافی تھا کہ میرامحسن میرا محبوب ایڈیٹر میری اتنی بڑی خطاء کے بعد بھی مجھ سے راضی ہوگیاتھا،خبریں کراچی سے اجراء سے قبل لاہور سے چھپ کر آتاتھا تو کراچی میں اس کی قابل فروخت تعداد ساڑھے 4 ہزار تھی جبکہ کراچی سے شائع ہونے والے اخبارات "جنگ” اور "نوائے وقت” کے علاوہ کسی اخبار کی اشاعت خبریں سے زیادہ نہ تھی یہ اس کے مالک اور چیف ایڈیٹر ضیا شاہد کی کامیاب جادوگری تھی کہ اس کے دلچسپ نعرے "جہاں ظلم وہاں خبریں* نے اسے پسے ہوے طبقات کا پسندیدہ اخبار بلکہ ان کی زندگی کا لازمی جز بنادیاتھا ان دنوں اس کے بیورو کادفتر آئی آئ چندریگر روڈ پر "جنگ” کے برابر اب قومی اخبار والی گلی میں تھا اوراس کے بیوروچیف سینئر کامرس رپورٹر شاہد منصورتھے جو کچھ اکھڑ مزاج رکھتے تھے خبریں کی کراچی سے اشاعت سے 2 ماہ قبل میری خبریں میں بحیثیت سیاسی رپورٹر اور ادارہ جاتی بدعنوانی، تعیناتی ہوئی تھی اور ان دنوں خبریں کی اس روشنیوں کے شہر سے اشاعت کی تیاری زور شور سے اور آخری مراحل میں تھی اور شاید انہی دنوں نادرشاہ عادل کی بھی خبریں میں آمد ہوئی تھی خبریں کا دفتر محمودہ آباد میں زیر تعمیرتھا اور اس کی تکمیل کے ساتھ ہی خبریں کی کراچی سے اشاعت کی تاریخ کابھی اعلان کردیاگیاتھا کراچی سے اشاعت کی تیاریوں کے سلسلہ میں ضیاشاہد مرحوم نے اس کے گروپ ایڈیٹر عظیم نذیر کو کراچی بھیج دیاتھا جہاں وہ کراچی کے ریذیڈنٹ ڈائرکٹر شبیر چودھری اور نادر شاہ عادل کے ساتھ مل کر بھرتیاں اور دیگر ضروری امور نپٹارہے تھے شاہ جی اور شبیر چودھری کے کہنے پر عظیم نذیر نے مجھے گھرسے بلاکر نوکری دی تھی اس طرح شاہ جی کا میں ممنون احسان بھی تھا،شاہ جی اکثر صبح 10 بجے رپورٹرزکی میٹنگ میں یاتو خود شامل ہوتے یامیری مدد کو صبح کے دیگر اخبارات میں چھپنے والی ایسی خبروں کا چارٹ بناکربھجواتے جو "خبریں” میں مس ہوتیں اور چیف ایڈیٹر یا خود ان کی طرف سے ضروری ہدایات بھی،خبریں میں اس زمانے میں 42 رپورٹرز تھے اس طرح یہ میرا اعزازآج تک برقرارہے کہ میں کراچی کی سب سے بڑی رپورٹنگ ٹیم کا چیف تھا جن میں حنیف عابد،جاوید اصغرچودھری، کامران رضی، عرفان صدیقی، یونس آفریدی، شاہد غزالی، لیاقت رانا، عبید شاہ، صدیق چودھری، زرنگیں،سحر حسن،بشراسید،شاہد غزالی، نجم مرزا مرحوم،آصف علی سید،گل محمد منگی،غلام عباس ڈاہری،ایس ایم طارق،وکیل رائو،اعجاز شیخ،رضا حیدر، جاوید اقبال،عامر نثار، شکیل نائچ،فاروق درانی، ناصر جمال،اعجازقائم خانی،جمیل فاروقی،ندا علی،سردار خان،عمر شاہین، اختر روہیلہ، ایس ایم ممتاز،شکیل سلاوٹ، عاجزجمالی،نیاز کھوکھرشامل اور کمانڈو فوٹو جرنلسٹ مبارک الماس سمیت دیگر شامل ہیں ان میں زیادہ ترصحافی وہ ہیں، خبریں کی نوکری ان کا پہلا ادارہ تھا مگرآج وہ مختلف شعبہ ہائے زندگی میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہوے ہیں ان کی تربیت میں مجھ سے زیادہ شاہ جی کی نفیس شخصیت کا ہاتھ تھا جو دوستانہ ماحول میں ان کے ساتھ میری بھی تربیت کرتے رہتے،
(بقیہ:اگلی قسط میں)

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*