Column by Javed Chaudary
خان شبیر حسن خان راولپنڈی کا مشہور کردار تھا‘ اس کا اصل نام شبیر حسن تھا‘ راولپنڈی میں ٹیکسی چلاتا تھا‘ اس نے بعدازاں چھوٹے موٹے ٹھیکے لینا شروع کر دیے‘پیسے آئے تو کونسلر کا الیکشن لڑااور جیت گیا‘ کاری گر شخص تھا‘ وہ چند ماہ میں چیئرمین بھی بن گیا‘ ویسٹریج کے فوجی علاقے میں رہتا تھا‘ افسروں کے ساتھ تعلقات بہت اچھے تھے۔
جنرل ضیاء الحق نے 1985 میں غیرجماعتی الیکشن کرائے تو شبیر حسن نے ایم پی اے کا الیکشن لڑا اور وہ ’’فوجی مدد‘‘ سے 38 ہزار ووٹوں سے جیت گیا لیکن اس کی سوچ ٹیکسی ڈرائیور سے اوپر نہ جا سکی چناں چہ اس نے فوری طور پر اپنے نام کے آگے اور پیچھے خان لگا لیا اور خان شبیر حسن خان کہلانے لگا ‘ وہ ایک دن پشاور روڈ سے گزر رہا تھا۔
سامنے سے کوئی نوجوان موٹر سائیکل پر گزرا اورخان شبیر خان کی گاڑی سے ٹکرا گیا‘ شبیر حسن نے نیچے اتر کر نوجوان کو پھینٹا لگا دیا‘ نوجوان اسے بتاتا رہا میں فوج میں لیفٹیننٹ ہوں مگر شبیر حسن اس وقت تک دونوں سائیڈز سے خان ہو چکا تھا‘ اس نے فوج کا بھی احترام نہ کیا اورشبیر حسن کے لوگوں نے اس کی موٹر سائیکل بھی توڑ دی‘ نوجوان لیفٹیننٹ زخمی حالت میں اپنے میس میں پہنچ گیاوہاں اس وقت پچاس لیفٹیننٹ تھے۔
وہ اسے سی او کے پاس لے گئے اور سی او نے نوجوانوں کو تسلی دے کر بھجوا دیا مگر کسی قسم کی کارروائی نہ کی‘ لیفٹیننٹس کا خون گرم تھا‘ یہ اکٹھے ہوئے‘ خان شبیر حسن خان کے گھر پہنچے اور اسے اور اس کے کارندوں کو ٹھیک ٹھاک پھینٹا لگا دیا‘ یہ خبر اگلے دن پورے ملک میں پھیل گئی۔
محمد خان جونیجو اس وقت وزیراعظم تھے‘ انھوں نے جنرل ضیاء الحق سے شدید احتجاج کیا مگر جنرل ضیاء الحق نے ہنس کر معاملہ ٹال دیا ‘ اس واقعے نے بعدازاں محمد خان جونیجو کی حکومت کی رخصتی میں اہم کردار ادا کیا‘ بہرحال 1988میں الیکشن ہوئے‘ فوج اس وقت تک شبیر حسن کے خلاف ہو چکی تھی۔
لہٰذا اس باراسے 38 ہزار کی جگہ صرف 191 ووٹ ملے جس کے بعد وہ خان شبیر حسن خان سے ایک بار پھر شبیر حسن ہو گیا اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا فوج نے اس کے آگے اور پیچھے دونوں سائیڈز سے خان غائب کر دیا ہے اور یوں وہ چند برسوں میں گم نام کردار بن کر سیاست کی کتاب سے غائب ہو گیا۔
یہ بظاہر چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن یہ واقعہ پاکستانی حقیقتوں کا آئینہ ہے‘ ہم لوگ من حیث القوم ترقی کے بعد خان شبیر حسن خان بن جاتے ہیں‘ ہمارے اندر تکبر آ جاتا ہے اور ہم اس سے پنگا لے بیٹھتے ہیں جس کی وجہ سے ہم ترقی کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہم چند ہی دنوں میں دوبارہ شبیر حسن بن جاتے ہیں۔
دوسری حقیقت اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی حقیقت ہے‘ آپ خان شبیر حسن خان ہوں یا آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف یاپھر عمران خان ہوں آپ ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے لڑ کر کام یاب نہیں ہو سکتے‘ ذوالفقار علی بھٹو اس حقیقت کی خوف ناک مثال ہیں۔
بھٹو صاحب بلا شبہ پاکستان کے مقبول ترین لیڈر تھے اور وہ مقبولیت کے اس زعم میں فوج سے لڑ پڑے تھے اور اس کے بعد ان کے ساتھ وہ ہواجو دشمن کے ساتھ بھی نہیں ہونا چاہیے تھا‘ محترمہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری کے لیے بھٹو صاحب کی قربانی کا اشارہ کافی تھا‘ انھوں نے کبھی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے کی غلطی نہیں کی‘ محترمہ بے نظیر بھٹو1988میں وزیراعظم بنیں تو آرمی چیف جنرل اسلم بیگ نے انھیں حلف سے قبل کھانے پر بلایا‘ ملک ریاض اس واقعے کے گواہ ہیں‘ جنرل اسلم بیگ نے اس رات کھانے کی میز پر بے نظیر بھٹواور آصف علی زرداری سے کہاتھا‘ جنرل ضیاء الحق میرے چیف تھے۔
میری آپ سے درخواست ہے آپ کے دور میں ان کی فیملی کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے اور دوم میرے چیف کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں ہونی چاہیے‘ یہ درخواست حکم تھا اور بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری اس حکم کو سمجھ گئے‘ آپ کو یاد ہو گا‘ بے نظیر بھٹو کے دور میں اعجاز الحق نے جلسہ عام میں کلاشنکوف لہرا دی تھی‘ انھیں گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن جنرل نصیر اللہ بابرکو جی ایچ کیو سے ایک فون آیا اور اعجاز لحق دو گھنٹے بعد گھر میں اپنی والدہ کے ساتھ چائے پی رہے تھے جب کہ شیخ رشید اسی کیس میں دوسال جیل رہے۔
میاں نواز شریف بھی تین بار اقتدار سے فارغ ہوئے اور تینوں مرتبہ فوج سے مخاصمت وجہ بنی لیکن میاں نواز شریف نے بھی اس لڑائی کو کبھی فوج سے جنگ میں تبدیل نہیں ہونے دیا‘ ان کی جنرل آصف نواز جنجوعہ سے لڑائی تھی لیکن یہ جنرل عبدالوحیدکاکڑکے ساتھ کمفرٹیبل تھے‘ جنرل پرویز مشرف سے ان کا ٹھیک ٹھاک پھڈا ہوا مگر انھوں نے جنرل کیانی کے ساتھ آئیڈیل تعلقات رکھے اور جنرل راحیل شریف اور جنرل باجوہ کے ساتھ ان کے فاصلے تھے مگر یہ جنرل عاصم منیر کے ساتھ ٹھیک ہیں۔
آپ دیکھ لیں یہ جنرلز سے لڑ رہے ہیں مگر یہ اس لڑائی کو ادارے کے ساتھ لڑائی میں تبدیل نہیں ہونے دے رہے‘ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن بھی اسی ’’فٹ پرنٹ‘‘ پر چل رہے ہیں جب کہ عمران خان نے جنرل باجوہ کے ساتھ لڑائی کو فوج سے لڑائی میں تبدیل کر دیا ہے اور یہ اس غلط فہمی کا شکار بھی ہیں کہ میں یہ جنگ جیت جاؤں گا جب کہ حقیقت یہ ہے اس خطے میں انگریز بھی لوکل فوج کی مدد کے بغیر داخل نہیں ہو سکا تھا اور یہ ہمارا ’’ڈی این اے‘‘ ہے۔
میں شروع میں سمجھتا تھا عمران خان کا ایشو صرف جنرل باجوہ ہیں‘ یہ باقی فوج کے ساتھ کمفرٹیبل ہیں جب کہ جنرل باجوہ میری رائے سے اتفاق نہیں کرتے تھے‘ ان کا خیال تھا یہ بیٹی کوسنا کر بہو کو سمجھا رہے ہیں‘ یہ پورے ادارے کو تباہ کرنا چاہتے ہیں‘ وقت نے جنرل باجوہ کی بات سچ ثابت کر دی‘ آپ آج دیکھ لیں عمران خان کی لڑائی فوج سے جنگ میں تبدیل ہو چکی ہے اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف بھی اب ٹرینڈز شروع ہو چکے ہیں‘ لندن اور امریکا میں عمران خان کی حمایت اور فوج کے خلاف مظاہرے شروع ہو چکے ہیں۔
عمران خان اب خود بھی بے غیرت کا لفظ استعمال کر رہے ہیں اور یہ حافظ اور حاجی کے الفاظ کے ذریعے بھی مذاق اڑا رہے ہیں‘ جنرل عاصم منیر اگر ایک شخص ہوتے تو عمران خان بے شک دن رات ان کا مذاق اڑاتے رہتے لیکن یہ فوج کے سربراہ ہیں اور فوج بہرحال پاکستان کی واحد بائینڈنگ فورس ہے‘ یہ وہ رسی ہے جس نے پورے ملک کو باندھ رکھا ہے‘ یہ اگر کھل گئی تو ملک بکھر جائے گا اور مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا ہے عمران خان یہی چاہتے ہیں۔
یہ اس ملک کو توڑ پھوڑ کر برابر کرنا چاہتے ہیں‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے عمران خان کی آخر فوج کے ساتھ کیا لڑائی ہے؟ کیا یہ جنرل باجوہ سے یہ نہیں چاہتے تھے فوج ق لیگ‘ ایم کیو ایم اور باپ پارٹی کو ان کے ساتھ بٹھائے اور پی ڈی ایم کو ڈنڈے کے زور پر عدم اعتماد کی تحریک واپس لینے پر مجبور کرے اور کیا انھوں نے اس کے عوض انھیں ایکسٹینشن کی آفر نہیں کی تھی؟
کیا یہ نہیں چاہتے تھے جنرل عاصم منیر کو آرمی چیف نہ بنایا جائے اور یہ اس تقرری کو روکنے کے لیے لانگ مارچ لے کر اسلام آباد نہیں آئے تھے اور کیا یہ اب بھی یہ نہیں چاہتے وفاقی حکومت توڑ دی جائے اور ان کی مرضی کی نگران حکومت اور الیکشن کمیشن بنایا جائے اور مرضی کی تاریخ پر الیکشن کرائے جائیں؟کیا یہ الیکشن سے قبل مخالفین کو جیلوں میں نہیں دیکھنا چاہتے؟یہ دو تہائی اکثریت نہیں چاہتے‘یہ نیا آئین بنانے اور ملک کو پارلیمانی سے صدارتی نظام میں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں چاہتے؟
یہ نیب‘ ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو اکٹھا کر کے وزارت داخلہ کے ماتحت نہیں کرنا چاہتے اور پھر جنرل فیض حمید کو وزیر داخلہ نہیں بنانا چاہتے اور خان صاحب یہ نہیں چاہتے وزیراعظم (صدارتی نظام کے بعد صدر) آرمی چیف‘چیئرمین نیب اور چیف جسٹس کو کسی بھی وقت ڈی نوٹی فائی کر سکے اور 37 لیفٹیننٹ جنرلز براہ راست وزیراعظم کے ماتحت ہوں اور نیوکلیئر اور میزائل پروگرام بھی وزیراعظم کے کنٹرول میں ہو اور آپ دل پر ہاتھ رکھ کر جواب دیجیے۔
آج اگر جنرل عاصم منیر ان کی آدھی خواہشیں مان لیں تو کیا عمران خان اپنی ہر تقریر میں ان کا نام عقیدت سے نہیں لیں گے اور کیا یہ اپنے ہر خطاب سے پہلے ان کی تلاوت نہیں چلوائیں گے؟ چناں چہ میرے خیال میں عمران خان کا مسئلہ کوئی ایک جنرل نہیں ہے‘ پوری فوج ہے‘ یہ اسے ’’سیدھا‘‘ کرنا چاہتے ہیں اور یہ اس کھیل میں اکیلے نہیں ہیں۔
میں آج دوبارہ کہہ رہا ہوں یہ ملک اوریہ طرز سیاست دونوں اکٹھے نہیں چل سکتے‘ آپ نے اگرملک کو بچانا ہے تو پھر آپ کو چند بڑے فیصلے کرنا پڑیں گے‘آپ عمران خان کے ساتھ بیٹھیں یا پھر ملک میں دو چار سال کے لیے سیاسی تحریکوں پر پابندی لگا دیں‘آپ کو بہرحال کوئی فیصلہ کرناہو گا‘ ملک اس طرح نہیں چل سکے گااور یہ اس وقت ایک ننگی حقیقت ہے۔
نوٹ:جولائی 2023 میںہمارا گروپ انگلینڈ جا رہا ہے‘ آپ اس گروپ کا حصہ بننے کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کر سکتے ہیں۔