تحریر :بلال شاہ
نشئی بیٹے نے بھین کو کرسٹل آئس پر لگا دیا
ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کی مانند شہر کراچی کے جرائم کا اوسط بھی مسلسل بڑھتا جارہا ہے جس طرح ملک حکومت کی ناقص پالیسیوں کے باعث تباہی کے دہانے پر ہے ٹھیک اسی طرح روشنیوں کا شہر کراچی بھی پولیس کی غیر مو¿ثر حکمت عملی کے باعث جرائم کے اندھیرو میں ڈوبتا جارہا ہے ہر گزرتے ہوئے دن کے ساتھ شہر کے جرائم کی شرح میں خطرناک حد تک اضافہ ہوتا جارہا ہے جرائم پر قابو پانے اور جرائم پیشہ عناصر کو لگام ڈالنے والے شہر کے محافظ بے بس نظر آرہے ہیں جس کے باعث کئی شہری ڈکیتوں کے ہاتھوں اپنی جانوں کا ضیاع کرتے دیکھائی دیتے ہیں تو کہیں ڈاکو شہریوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں جرائم پیشہ افراد کے لئے شہر کے باسیوں کے دلوں میں خطرناک لاوا تیار ہوتا جارہا ہے جس کی ایک انوکھی مثال کراچی کے علاقے تھانہ بریگیڈ کی حدود میں پیش آئی گزشتہ ماہ کی 9 تاریخ کو مزار قائد سے متصل جناح گراونڈ سے تشدد زدہ نعش ملنے کی اطلاع پولیس کو 15 پر شہری کی جانب سے دی گئی نعش کی اطلاع ملتے ہی پولیس نے موقع پر پہنچ کر نعش کو تحویل میں لینے کے بعد قانونی کارروائی کے لئے اسپتال منتقل کیا پولیس نے کارروائی کا آغاز کرتے ہوئے نعش کے ورثا کی تلاش شروع کی اور ورثا کو ڈھونڈنے کے بعد اس مرنے والی کی معلومات شروع کی جس پر مقتول کے والد نے پولیس کو بیان دیا کہ اس کا بیٹا نشے کا عادی تھا اور وہ اکثر گھر سے غائب رہتا تھا اور وقوعہ کے روز بھی وہ گھر پر نہیں آیاتھا ہم نے اسے تلاش کیا لیکن وہ ہمیں نہ مل سکا تاہم پولیس نے لواحقین کے بیان کے بعد انہیں گھر روانہ کردیا اور نعش کا پوسٹ مارٹم شروع کروایا مقتول فیصل مسیح کی نعش کا پوسٹ مارٹم جب مکمل ہوا تو پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا کہ جب اسے قتل کیا گیا تو مقتول نشے کی حالت میں تھا اور اسے لوہے کی نوکیلی چیز سے پے در پے وار کرکے بے
دردی سے قتل کیا گیا ہے پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنے کے بعد پولیس نے اپنی تفتیش کا دائرہ کار بڑھاتے ہوئے قتل کی تحقیقات کو مزید تیز کردیا اور مقتول فیصل کے قتل میں ملوث افراد کو گرفتار کرنے کی کوششیں تیز کردیں پولیس نے مقتول کے لواحقین سے دوبارہ بیان لیے کے لئے انہیں تھانے بلایا اور تمام افراد کا الگ الگ بیان ریکاڈ کیا گیا تفتیش کے دوران مقتول کے باپ کے بیان میں پولیس نے تضاد پایا جس پر پولیس کو شبہ ہوا کہ مقتول کے والد کو قتل کے بارے میں معلومات ہیں جس پر تفتیشی افسر نے پولیس کے اعلیٰ افسران سے رابطے اور ان کی اجازت سے مقتول کے والد یعقوب مسیح کو قتل کی اس واردات کے حوالے سے شامل تفتیش کرلیا وحشیانہ قتل کی تفتیش کے دوران پولیس کو مقتول کے والد کی جانب سے حولناک انکشاف سامنے آیا پولیس کی جانب سے ہونے والی تفتیش کے دوران یعقوب مسیح نے اپنے سگے بیٹے کو قتل کرنے کا اعتراف کرتے ہوئے قتل کی بڑی وجہ بتائی ملزم باپ یعقوب نے بتایا کہ اس کا بیٹا فیصل مسیح خطرناک حد تک (آئس‘پاو¿ڈر اور کرسٹل)کا نشہ کرتا تھا چونکہ نشے کی لت کے باعث وہ کہیں بھی نوکری نہیں کرپاتا تھا اور اپنا نشہ پورا کرنے کے لئے اس کے باس پیسے نہیں ہوتے تھے تو وہ نشے کی لت کو پورا کرنے کے لئے شروع شروع میں چھوٹی موٹی چوری کی وارداتیں انجام دیتا تھا جبکہ مقتول کے باپ ملزم یعقوب نے ایک اور انکشاف کیا کہ مقتول فیصل مسیح نہ صرف خود نشہ کرتا تھا بلکہ اس نے اپنی ہی سگی بہن کو بھی نشے کا عادی بنا دیا تھا جس سے میں بہت پریشان تھا اور مقتول کو بہت سمجھانے کے باوجود بھی وہ نہ مانا بلکہ اور بڑہتا گیا مقتول اپنا نشہ پورا کرنے کے لئے چھوٹی موٹی چوری کی وارداتوں کو چھوڑ کر ڈکیتی کی وارداتوں میں ملوث ہوچکا تھا جس کا اب واپس لوٹنا ناممکن تھا مقتول نے اعتراف جرم کرتے ہوئے بتایا کہ واردات کے دن میں نے اپنے بیٹے کے ساتھ کافی وقت گزارا گھر سے اسے اپنے ساتھ لے کر مزار قائد سے متصل جناح گراو¿نڈ آیا جہاں ایک خالی کنٹینر موجود تھا وہاں میں نے اپنے مقتول بیٹے کے ساتھ بیٹھ کر اسے نشہ کروایا اور کئی گھنٹے تک وہ نشہ کرتا رہا جب میں نے محسوس کیا کہ وہ نشے میں مشغول ہوگیا ہے اور اب اسے اپنا ہوش نہیں تو میں نے پیچکس نکالا جو میں گھر سے اپنے ساتھ لایا اور جائے وقوعہ کو اچھی طرح چیک کرنے کے بعد کہ کوئی آس پاس تو نہیں یہ کوئی دیکھ تو نہیں رہا پھر میں نے اپنے بیٹے کے سے اور گردن پر پے در پے وار کرکے اسے قتل کردیا اور موقع پر آلہ قتل لے کر فرار ہوگیاپولیس نے ملزم باپ یعقوب مسیح کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرکے تو اسے گرفتار کرلیا ہے لیکن ساتھ ہی یہ پیغام بھی دیا ہے کہ والدین اپنے بچوں پر نظر رکھیں انہیں کسی بھی غلط صحبت میں نہ بیٹھنے دیں اور اپنی اولاد کی کسی بھی غیر قانونی حرکت کو دیکھ کر انہیں خود سے منتخب کردہ سزا دے کر قانون کو ہاتھ میں نہ لیں بلکہ انہیں قانون کے حوالے کریں اور قانون کے مطابق انہیں سزا دلائیں قانون کی پاسداری ہمارے ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت ہے۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭