اگر کوئی پارٹی یا شخص سمجھتا ہے اس کی سیاست ریاست سے بڑی ہے تو پھر ہمیں یہ قبول نہیں: ڈی جی آئی ایس پی آر

پاکستانی فوج کے ترجمان کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخوا میں شدت پسندی کی بڑھتی کارروائیوں کی ایک وجہ سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے مگر ’کسی فرد واحد کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ اپنی ذات اور مفاد کے لیے پاکستان اور خیبر پختونخوا کے عوام کے جان و مال کا سودا کرے۔‘

کور کمانڈر ہاؤس پشاور سے پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کا کہنا تھا کہ ان کا کہنا تھا کہ فوج صوبے میں آئین و قانون کے تحت سکیورٹی ذمہ داری نبھا رہی ہے جس کی بنیادی ذمہ داری صوبائی و مقامی انتظامیہ کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی پارٹی یا شخص یہ سمجھتا ہے اس کی سیاست ریاست سے بڑی ہے تو پھر ہمیں یہ قبول نہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’افواج پاکستان یہ امید کرتی ہے کہ خیبر پختونخوا کے سیاستدان ’بجائے منفی سیاست، الزام تراشی اور خوارجی کریمینل مافیا کی سہولت کاری کے، آپ اپنی بنیادی ذمہ داری پر توجہ دیں گے۔۔۔ امید کرتے ہیں صوبہ خیبر پختونخوا کے عوام کی سلامتی کے لیے افغانستان سے سکیورٹی کی بھیک مانگنے کی بجائے اس صوبے کے ذمہ داران ہوتے ہوئے آپ خود اس کی حفاظت کریں گے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’افواج پاکستان واضح کرنا چاہتی ہے خوارجی دہشتگرد اور ان کے سہولت کاری چاہے وہ کوئی بھی ہو، کسی بھی عہدے پر ہو، اس پر زمین تنگ کر دی جائے گی۔‘

’جو شخص یا گروہ کسی مجبوری یا فائدے کی وجہ سے خوارجیوں کی سہولت کاری کر رہا ہے۔ اس کے پاس تین راستے ہیں: اول کہ وہ خود ان خوارجیوں کو ریاست کے حوالے کرے یا پھر دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں میں ریاست کے خلاف مل جائے۔۔۔ ورنہ سہولت کار ریاست کے بھرپور ایکشن کے لیے تیار ہو جائیں۔‘

دریں اثنا پاکستانی فوج کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ شدت پسندوں سے کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی اور اس کا مطالبہ کرنے والے عناصر قوم کو کنفیوز کر رہے ہیں۔

پشاور میں پاکستانی فوج کے ترجمان سے پوچھا گیا کہ خیبر پختونخوا کے نئے نامزد کردہ وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان کے طالبان کے ساتھ روابط ہیں اور وہ ان سے بات چیت کرنا چاہتا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ ’آپریشن نہ کریں بات چیت کریں، یہ کون کہہ رہا ہے؟ وہ شخص جو کہہ رہا ہے کہ ایسی صوبائی حکومت برداشت نہیں جو آپریشن کے خلاف کھڑی نہ ہو۔ یہ سب کے لیے واضح ہے کہ وہ کون سی سیاسی شخصیت ہے جو دہشتگردوں سے بات چیت کرنے کا کہتی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت وہ ریاست کے ذمہ دار تھے۔ آج وہ ریاست کا حصہ نہیں پھر بھی یہ کہہ رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ عوام کو یہ کہہ کر ’کنفیوز کیا جاتا ہے کہ جنھوں نے آپ کے بچوں کو مارا، ان سے بات چیت کر لو۔‘

انھوں نے کہا کہ ’دہشتگرد یہ کہتے ہیں کہ ہماری بچیوں کے وہ حقوق نہیں جو اسلام نے دیے ہیں، ان سے بات چیت کرنے کا کہا جاتا ہے۔۔۔ کون یہ کہہ رہا ہے کہ پاکستان کی سکیورٹی کی گارنٹی کابل دے گا؟ یہ سب کے لیے واضح ہے۔ اس سوچ اور مجرمانہ بیانیہ کی قیمت قوم ادا کر رہی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس نے بات چیت کی بھی لیکن آپ نے اس بات چیت کا حال دیکھ لیا؟۔۔۔ کیا خوارجی نور ولی محسود سے بات چیت کریں؟‘

ترجمان پاکستانی فوج نے سوال کیا کہ ’کیا آپ ان سے بات چیت کر بھی سکتے ہیں؟‘

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*