پی پی اور ن لیگ کی لڑائی کے پیچھے اصل وجوہات کیا ہیں؟

پی پی اور ن لیگ کی لڑائی؟
تنازعہ کی وجوہات کوئی ایک بات نہیں شکایات کا انبارہے۔۔،
کب کہاں کیا ہوا کہ اتحادیوں میں آگ بھڑک اٹھی،
پی پی اور ن لیگ کی لڑائی کے پیچھے اصل وجوہات کیا ہیں؟

کراچی (اغاخالد)
یہ ایک قیمتی سوال ہے جس کا جواب جاننے کے لیے قوم پریشان ہے کہ اچانک محبتوں کے پیالے میں زہر کس نے گھول دیا جبکہ ہمارے ملک کے مقبول دانشوران اس سلسلہ میں اپنی معلومات کے مطابق گھوڑے دوڑا رہے ہیں اور کئی وجوہات بیان کی جارہی ہیں ممکنات کی حد تک ان میں صداقت بھی ہوسکتی ہے مگر میری ناقص معلومات کے مطابق یہ ایک روز کی کہانی نہیں نہ ہی محترمہ مریم نواز کی کسی ایک تقریر کا نتیجہ ہے دونوں طرف لاوا خاصے دنوں سے پک رہا تھا گرنیٹ کی پن کھینچ نے کا سہرا محترمہ کے سر بندھا،
در حقیقت یہ دوطرفہ شکایات کا جوالا مکھی ہے، پہلے ہم پی پی کے ذرائع سے ملنے والی شکایات پر بات کرلیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ خان حکومت کے خلاف کامیاب تحریک عدم اعتماد کا سوفیصد سہرا سیاست کے بادشاہ صدر مملکت آصف زرداری کے سر ہے جبکہ اس وقت ن لیگ کے قائد نواز شریف تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہ تھے ان کا خیال تھا کہ خان کی تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت اور ان کی بدترین حکومتی کار کردگی کے سبب اب عوام کی مایوسی انتہا پر ہے اسے مزید ڈیڑھ سال دیدیا جائے تو وہ ہمیشہ کے لیے گمنامی کے اندھیروں میں کھو جائے گا مبینہ طور پر نواز شریف کا کہنا تھا کہ ڈوبتی ملکی معیشت کو یہ سنبھالا نہیں دے سکتے اس لیے اگلے ڈیڑھ سال میں مہنگائی کا جو طوفان اٹھے گا اور ملک دیوالیہ کے قریب پہنچ جائے گا تو انتخابات کا بگل بجے گا اور خان کی چھٹی ہو جائے گی مگر زرداری صاحب کا موقف برعکس تھا وہ کہ رہے تھے کہ خان جنرل فیض کو چیف بنوائے گا اس کے کاندھوں پر سوار ہوکر بری کارکردگی کے باوجود جھرلو پھیر ے گا اور اگلا الیکشن جیت جائے گا اور پھر ہمیں مزید 5 سال ان دونوں کو بھگتنا ہوگا اس لیے اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے تاہم نواز شریف ان کے موقف کو ماننے کو تیار نہ تھے ایک تو ان کا خیال تھا کہ خان روائتی سیاستداں نہیں وہ ضدی اور ہٹ دھرم ہے جبکہ جنرل فیض بھی کم نہیں ابھی تو وہ چیف بننے کے لیے خان کے ناز اٹھارہا ہے مگر جنات کی چھڑی ہاتھ میں آجانے اور فیصلہ کن قوت مل جانے پر اپنے اصل پر پرزے نکالے گا تو جو خان باجوا جیسے ٹھنڈے مزاج کے ساتھ نبھاہ نہ کر سکا وہ فیض سے چند ماہ میں ہی الجھ بیٹھے گا اور وہ پنجہ آزمائی ہوگی کہ الامان والحفیظ،
ان مذاکرات کے دوران نواز شریف لندن میں قیام پذیر تھے اور ڈاکیے کا کردار شہباز شریف ادا کرہے تھے جو بظاہر اپنے بڑے بھائی کے اقتدار کی راہ ہموار کرہے تھے اور انہیں چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بنانے کے گیت گارہے تھے مگر اندر سے وہ بھائی کی بجائے زرداری صاحب کے موقف کے حامی تھے اس کی بڑی وجہ زرداری صاحب کی ترپ کا وہ پتہ تھا جو وہ شہباز شریف کو اپنا ہمنوا بنانے کے لیے انہیں وزیر اعظم بنانے کی پیش کش کرکے کھیل چکے تھے، یوں انہوں نے من پسند نتائج کی بر آوری کے لیے نواز شریف کو بھی کمزور کر دیا تھا، خاص کہ عزائم کے تحت شہباز نے بھی زور لگایا اور اپنے بھائی کو تحریک کی حمایت پر امادہ کرلیا اور یوں شہباز کی شیروانی کام آہی گئی اس پر ن لیگ کا موقف ہے کہ زرداری صاحب کو بھی ڈوبتی ملکی معیشت کا اندازہ تھا وہ ذہین ترین سیاستدان ہیں انہوں نے اتنی محنت کے بعد بھی اپنے بیٹے پر شہباز کو ترجیح اس لیے دی کہ پی ٹی ائی کی طرح ان کا بھی یہی خیال تھا کہ اگلے چند ماہ میں ملک دیوالیہ ہو جائے گا مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان برپا ہوگا لوگ سڑکوں پر نکل ائیں گے جس پر اسٹبلش منٹ بھی مشکل میں آجائے گی تو ایسے میں وہ رابطہ کار کا کردار ادا کرکے پی ٹی ائی اور اسٹبلش منٹ  کی مدد کرکے دونوں کی ہمدردیاں حاصل کرلیں گے جبکہ ن لیگ عوامی غیض و غضب کا شکار ہو جائے گی اور پھر انتخابات کے بعد بلاول کے لیے وزارت عظمی یاپھر پی ٹی آئی کی مدد سے کوئی بہتر منصب آسانی سے حاصل کیا جاسکے گا کیونکہ ان کے مبینہ خیال کے مطابق اسٹبلش منٹ پی ٹی ائی کو اب کسی صورت اقتدار تک نہیں پہنچ نے دے گی مگر ہوا اس کے بر عکس پھر جونہی انتخابات کا بگل بجا اور ن لیگ کی جانب سے نواز شریف کو چوتھی بار وزارت عظمی’ تک پہنچانے کے دعوے کیے جانے لگے تو زرداری صاحب نے اپنی ترکش سے ایک اور تیر نکالا، یہ یاد ہوگا کہ جنرل باجوا نے ریٹائرمنٹ سے چند ہفتے قبل بہت سے کور کمانڈرز کے تبادلے اور تقرریاں کی تھیں جو ایک غیر اخلاقی فعل تھا دراصل وہ فیض کی ناکامی سے مایوس ہوکر ایک منظم سازش کے تحت مو جودہ چیف کی راہ میں کانٹے بچھا گئے ان کے لگائے زیادہ تر کور کمانڈرز کی وفاداریاں فیض کے کھاتہ میں تھیں اور ہماری فوج میں کور کمانڈر بہت طاقت ور افسر ہوتا ہے جس کی ماتحتی میں لاکھوں مسلح فوجی اور جدید اسلحہ کا بڑا ذخیرہ ہوتا ہے ان افسران کی اکثریت کے نزدیک نواز شریف کی شخصیت سخت نا پسندیدہ تھی بقول ن لیگ کے  اس کا فائدہ اٹھاتے ہوے بلاول بھٹو نے ان کے ایما پر اپنی انتخابی مہم کا اغاز ہی ن لیگ پر تنقید کے تیر برساتے ہوے کیا خاص طور پر کئی ایک جلسوں میں مبینہ بلاول کی پشت پر ڈوریاں ہلانے والوں کو خوش کرنے کے لیے انہوں نے دعوی کیاکہ وہ نواز شریف کو کسی صورت چوتھی بار وزیر اعظم نہیں بننے دیں گے یہ سب کچھ نواز شریف کی وہ بیٹی سن اور برداشت کرہی تھی جو اپنے والد کو بچانے کے لیے خم ٹھوک کر میدان سیاست میں کودی تھی اور والد کو رہا کروانے کے لیے گرفتاریاں جیلوں کی سختیاں برداشت کرچکی تھی انتخابات کے بعد ن لیگ پی پی اور تیسرے طاقت ور فریق کے درمیان اقتدار کی بندر بانٹ کا جو فارمولہ طے پایا اس میں ن لیگ اور پی پی کو ڈھائی ڈھائی سال کا اقتدار ملنا تھا، پہلی باری طاقت وروں کی خواہش پر شہباز کے حصہ میں ائی اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ اسٹبلش منٹ  ملک کے دونوں بڑے عہدے باپ بیٹے کو دینے پر تذبذب کا شکار تھی، ایک اور ذریعے کا کہناہے کہ اصف زرداری جیسا گھاگ سیاستداں یہ کیسے بھول سکتا ہے کہ ان کے صدر مملکت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد بلاول کے لیے وزارت عظمی کا حصول  مزید مشکل ہو جائے گا ایک اور سوال پر اسی ذریعہ نے دعوی کیاکہ در اصل انتخابی مہم کے دوران باپ بیٹے میں پہلے سے موجود کچھ اختلافات میں شدت آگئی تھی اور ہمیشہ کی طرح بلاول بھٹو نے باپ کے نزدیک اپنی کچھ نا پسندیدہ شرائط ضد کرکے منوائیں جس پر زرداری صاحب نے غصہ میں اعلان کیاکہ صدر مملکت کے اگلے منصب کے لیے وہ خود امیدوار ہوں گے یہ اعلان اتحادیوں کے نزدیک کسی دھماکہ سے کم نہ تھا کیونکہ تحریک عدم اعتماد سے قبل ہی فریقین کے درمیان یہ طے پاچکا تھا اگلے صدر مملکت کے امیدوار مولانا فضل الرحمان ہوں گے انتخابات کے بعد بھی بننے والی حکومت میں ن لیگ کے شدید اصرار کے باوجود پی پی شراکت دار نہ بنی پی پی والوں کی وہی امیدیں کانوں میں رس گھول رہی تھیں کہ شہباز ناکام ہوں گے اور عوامی ہمدردیاں ہم سمیٹ لیں گے ن لیگ کا کہنا ہے کہ ہم سب سمجھتے ہوے بھی خلوص دل سے پی پی کی توقعات سے زیادہ آئنی عہدے، گورنریاں، چیرمین سینٹ اس کی جھولی میں ڈالتے رہے یہاں تک کہ مولانا فضل الرحمان کے ساتھ کی گئی بد عہدی پر ان کی ناراضگی کو بھی دور کرنے کے لیے ہمیں کیا کیا جتن کرنے پڑے یہ ایک الگ داستان ہے تاہم پی پی کی شکایات اپنی جگہ خاصہ وزن رکھتی ہیں ہوا کچھ یوں کہ گزشتہ ماہ مری میں ایک بڑی بیٹھک ہوئی تھی جس میں حکومتی عہدوں تقریوں اور پالیسیوں کے متعلق اہم فیصلے کیے گئے اس بیٹھک میں ن لیگ کے قائد نواز شریف، وزیر اعظم شہباز شریف، محترمہ مریم نواز اور فیلڈ مارشل عاصم منیر شریک ہوے اس بیٹھک سے قبل اسٹبلش منٹ کے اپنے ایک سے زائد اہم اجلاس ہوے تھے جن میں کیے گئے فیصلوں سے فیلڈ مارشل نے نواز شریف اور اجلاس کے دیگر شرکاء کو اعتماد میں لیا اور بتایا کہ ان کے ساتھی چاہتے ہیں کہ شہباز شریف ہی پانچ سال وزیر اعظم رہیں فیلڈ مارشل نے بھی بلاول سے کیے گئے وعدہ کے برعکس فیصلہ پر وہی اعتراض دہرایا کہ ان کے ساتھیوں کو یہ قبول نہیں کہ باپ بیٹے کے پاس ملک کے سب سے بڑے عہدے ہوں، جبکہ پی پی والے کہتے ہیں کہ اس موقع پر شہباز شریف کو زرداری صاحب کے احسانات یاد رکھتے ہوے وزارت عظمی کی توسیع کو رد کر دینا چاہیے تھا دوسری طرف ن لیگ کی شکایات کی فہرست بھی خاصی طویل ہے وہ کہتے ہیں کہ وزیر اعظم جب بھی صدر زرداری سے ملنے جاتے ہیں انہیں ان کے شایان شان تکریم دینے کی بجائے زرداری صاحب کی صدارتی کرسی کے برابر ایک سادہ سی کرسی پر بٹھایا جاتا ہے پھر خاصے توہین امیز انداز میں ان کی تصاویر ایوان صدر سے جاری کی جاتی ہیں ن لیگ کے ایک اہم رہنما نے بتایا کہ کچھ عرصہ قبل وزیر اعظم کسی اہم میٹنگ یا تقریب میں شرکت کے لیے ن لیگ کی سینیر قیادت کے ساتھ ایوان صدر گئے اس تقریب کے اغاز  میں ہی صدر زرداری نے اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کو اپنی برابر والی کرسی سے اٹھاکر یوسف رضا گیلانی کو اس نشست پر بٹھادیا صدر کے اس فعل پر ن لیگ کے وزراء اور ارکان اسمبلی ششدر رہ گئے اور وہ رد عمل کے لیے اپنے قائد اور وزیر اعظم کی طرف دیکھنے لگے مگر شہباز ہمیشہ کی طرح انجان بنے رہے جیسے انہوں نے کچھ دیکھا ہی نہ ہو اس طرح ایوان صدر کی اکثر تقریبات میں ن لیگ کی سینیر قیادت کے ساتھ اس طرح کا توہین امیز سلوک مسلسل جاری ہے ان کا شکوہ مزید یہ ہے کہ پی پی کے روز بروز آنے والے تمام مطالبات کو حکومت ترجیحی بنیادوں پر حل کرتی ہے تاہم کچھ فائلیں مشاورت کے لیے ایک ادھ روز اگر رک جائیں تو اسمبلی میں محترمہ شازیہ مری، نبیل گبول سمیت ان کے سینیر لیڈر حکومت پر چڑھ دوڑتے ہیں اور اتنی سخت تقاریر میں حکومت پر ننگی تنقید کرنے لگتے ہیں کہ پی ٹی ائی والے بھی حیرت سے دانتوں میں انگلیاں چبانے لگتے ہیں یہ لوگ قومی اسمبلی میں محترمہ آصفہ بھٹو کی جانب سے چودھری تنویر کو ڈانٹ کر بٹھا دینے کا حوالہ بھی دیتے ہیں جس میں اسمبلی کے فلور پر بات کرنے سے چودھری تنویر کو ڈانٹ کر روک دیا تھا ان کا شکوہ اس پر بھی ہے کہ پنجاب میں محترمہ مریم نواز نے اپنے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دینے سے منع کردیا تھا بعض ارکان نے اس پر احتجاج کیا تو محترمہ نے کہاکہ آپ حلف اٹھا کر بتائیں کیا آپ اپنی کار کردگی کی بنیاد پر انتخاب جیت کر آئے ہیں تو وہ ارکان خاموش ہوگئے مگر پی پی والے مسلسل شور مچاتے اور فنڈز کے لیے دہائیاں دیتے رہے جب زیادہ شور مچا تو وزیر اعظم نے معاملات میں مداخلت کرتے ہوے اپنی طرف سے بلاول بھٹو کو ان کی صواب دید پر 10 ارب کے فنڈز دیدیے جو کہاں خرچ ہوئے۔۔۔ہنوز دلی دور است، اسی طرح یوسف رضا گیلانی اور ملتان، بہاول پور، رحیم یارخان کے پی پی رہنمائوں کے اصرار پر میرٹ کی مبینہ خلاف ورزی کرتے ہوے وزیر اعظم نے سفارش کی جس وزیر اعلی نے ان کے پسندیدہ ڈپٹی کمشنرز، ڈی پی اوز اور کمشنرز تک کے افسران کی تقرریاں ان کے علاقوں میں کیں جس پر ن لیگ کے  اپنے ارکان اسمبلی ناراض ہوگئے کہ انہیں تو میرٹ کہ کر ٹال دیا گیا تھا اس پر بھی پارٹی میں خاصی لے دے ہوئی ایک اور ن لیگی رہنما نے کہاکہ ہم ہمیشہ سے سنتے آئے تھے میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھوتھو لیکن یہاں ہوا الٹ۔۔غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ پی پی نے وفاق اور پنجاب حکومت میں شامل نہ ہوکر بہت بڑی غلطی کی ایک تو دونوں جگہ صدر زرداری کے اندازے غلط ثابت ہوے پھر وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل میں ہم آہنگی کے ساتھ کامیاب خارجہ پالیسی کی دنیا بھر میں شاندار پذیرائی، یوں ہر طرف ن لیگ چھا گئی اور پی پی کا کہیں ذکر ہی نہیں امریکی صدر کے تعریفوں کے ڈونگرے برسانا پی پی کو مزید ذہنی تنائو میں مبتلا کرگیا پھر اوپر سے محترمہ مریم کے لگاتار عوامی منصوبوں کی زبردست مقبولیت اور ہر طرف سے ان کی توصیف کے ساتھ سندھ حکومت کی کار کردگی پر مسلسل تنقید نے پی پی قیادت کو مشتعل اور جیالوں کو مایوس کردیا ہے تو آخر یہ بم تو پھٹنا تھا ہی، مگر کروڑوں کا سوال ہے کہ اب کیا ہوگا اس پر ن لیگ والے کہتے ہیں کہ ہمارے قائدین آج بھی پی پی کو نہ صرف ساتھ رکھنے بلکہ حکومت میں شامل کرنے کے حق میں ہیں خصوصا نواز شریف اس مفاہمت کو کھونا نہیں چاہتے مگر ان کے ایک سینیر وزیر نے کہاکہ مسلسل تنقید اور سو کنوں والا رویہ مزید برداشت نہیں تاہم جب ان سے سوال کیا گیا کہ اگر پی پی نے پی ٹی آئی سے ہاتھ ملا لیا اور بات عدم اعتماد تک جا پہنچی تو کیا ہوگا اس پر انہوں نے کہاکہ پی پی خوابوں کی دنیا سے نکل آئے ن لیگ کے پاس دو تہائی اکثریت موجود ہے کسی بھی قانون سازی کے لیے وہ پی پی کے محتاج نہیں اس نے بڑے اعتماد سے کہاکہ پی ٹی آئی کے 15 سے 20 ارکان اسمبلی اور 5 سینٹر حکومت سے رابطہ میں ہیں اور انہیں ترقیاتی فنڈز بھی جاری کیے جارہے ہیں وہ قانون سازی میں ہمارے ساتھ ہوں گے؟ یہاں بلاول بھٹو کے لیے مفت مشورہ ہے کہ وہ اپنی ضدی طبیعت کو تبدیل کریں ملکی سیاستدانوں کی موجودہ کھیپ میں ان کے والد سے زیادہ ذہین نہیں صدر مملکت کی ذات میں ناسا کی دوربین سے خامیاں ڈھونڈنے نکلیں تو سوائے سسٹم کی لعنت سے ان پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا مگر ایسے عیبوں سے دیگر سیاستداں بھی پاک نہیں تاہم بلاول اپنے والد کے تجربات سے وہ کچھ سیکھ سکتے ہیں جو دوسرے جنم تک شاید انہیں نہ مل سکے وہ تھوڑی دیر کے لیے ضرور سوچیں کہ ان کی ضد نے ان کے مستقبل اور پارٹی کو فائدہ دیاہے یا نقصان؟ اگر وہ والد کی آراء کے سامنے دیوار چین نہ بنیں تو سب سے پہلے سندھ کے وزیر اعلی کو تبدیل کریں جسے زرداری صاحب عرصہ دراز سے تبدیل کرنا چاہتے ہیں وہ 8 سال سے اس عہدہ پر برا جماں ہیں مگر وہ 8 سالوں کے 8 ترقیاتی منصوبے بھی نہیں گنوا سکتے جو پارٹی کی عزت میں اضافہ کرسکیں ان کی جگہ پارٹی میں نئے خون کو آگے لائیں آپ کے پاس شرجیل میمن اور سید ناصر حسین شاہ جیسے تجربہ کار اور ذہین وزرا موجود ہیں جن کی اب تک کی کارکردگی ہی پارٹی کا منافع ہے کابینہ میں کراچی کے 5 سے 6 وزرا شامل کریں جنہیں مکمل اختیار ہو کہ وہ شہر کا نقشہ بدل دیں شہریوں کو پی پی کے قریب لائیں اور اپنے کام سے عام آدمی کو متاثر کریں ایسے شہری افسران جن سے ناراضگی کے سبب برسوں سے انہیں کھڈے لائن لگایا ہوا ہے عوامی فلاح کے منصوبوں پر تقرریاں کریں آپ کے غصہ کی وجہ سے ان کی صلاحتوں کو زنگ لگ رہاہے کسی کو پیارا یا نا پسندیدہ نہ بنائیں ہر رشتہ صلاحیت اور کارکردگی سے مشروط ہو آپ میں خدا داد اہلیت موجود ہے جس کا اظہار دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے آپ نے وزیر خارجہ ہوتے ہوے ملک کا نام روشن کیا اور ضرور سوچیں اگر آج آپ خارجہ امور کے وزیر ہوتے تو ہر سو آپ کے ڈونگرے برس رہے ہوتے اور آپ کی اہلیت کی وجہ سے کسی کو یہ جرئت نہ ہوتی کہ وہ وزارت عظمی’ کے منصب تک پہنچ نے سے روک پاتا۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*