
پاکستان میں اخباری اشاعت کازوال؟
کراچی میں تمام اخبارات کی اشاعت 80 ہزار روزانہ تک محدود ہوگئی،
چند برس قبل تک یہی اخبارات 7 لاکھ روزانہ تک شائع ہوتے تھے،
دنیابھر میں اتنی تیزی سے اخبارات کی اشاعت نہیں گری؟
سرکاری اشتہارات کے ریکارڈ میں اشاعت آج بھی لاکھوں میں ہے،
اشاعت کے زوال کے باوجود اخباری قارئین کی تعداد بڑھی ہے،
نیٹ پر تعداد لاکھوں میں پہنچ چکی ہے،
جبار خٹک، محمود شام، اسد شاکر اور احمد حسین کے اس موضوع پر تاثرات،

کراچی (آغاخالد)
کراچی میں تمام اردو، سندھی اور انگریزی اخبارات کی روزانہ کی اشاعت 80 ہزار تک محدود ہوچکی ہے تاہم یہی اشاعت اتوار کو چھٹی کی وجہ سے ایک لاکھ 7 ہزار تک پہنچ جاتی ہے جبکہ چند برس قبل تک صرف روزنامہ جنگ کی اشاعت ڈیڑھ سے دو لاکھ تھی جبکہ بعض اہم واقعات خصوصا احتجاجی تحریکوں یا جنگوں کے دنوں میں یہی اخبار ساڑھے 3 لاکھ تک چھپتا رہاہے جبکہ کراچی کے اخبار فروشوں کے مطابق شہر کے تمام اخبارات کو ملاکر چند برس قبل تک یہ تعداد 7 لاکھ کے لگ بھگ تھی، حیرت انگیز طور پر انگریزی کے سب سے بڑے اخبار "ڈان” کی اشاعت میں کوئی خاص کمی نہیں آئی جبکہ یہ اخبار تیسری دنیا کے معاشی بحران میں مبتلا ملک کی اشرافیہ کا پسندیدہ اخبار سمجھا جاتا ہے، تیزی سے تبدیل ہوتی دنیا کے اثرات نے اس طبقہ کو شاید متاثر نہیں کیاہے اور نہ ہی تیز رفتار برقیاتی ذرائع کو وہ اپنے پسندیدہ اخبار پر ترجیح دینے کو راضی ہیں، تاہم اس سے یہ نتیجہ ہرگز نہیں نکالا جا سکتا کہ پاکستان یا خصوصا کراچی کی نئی نسل مطالعہ کے شعبہ میں بانجھ ہوچکی ہے کیونکہ یہی اخبارات پرنٹنگ کے شعبہ میں اگر زوال پذیر ہوے ہیں تو نیٹ (ای پیپر) پر غیر مصدقہ ویب پر موجود معلومات کے مطابق ان کی اشاعت کروڑوں میں پہنچ چکی ہے اور دنیا بھر کے اردو/انگریزی کے قارئین نیٹ پر ان کے مطالعہ کو ترجیح دے رہے ہیں جس سے نہ صرف روز بروز نیٹ پر ان کی مانگ میں تیزی آرہی ہے بلکہ اس سے ان کی آمدنی میں بھی معقول اضافہ ہورہا ہے، تازہ اعدادو شمار کے مطابق 3 ماہ میں ڈان کے نیٹ پر قارئین کی تعداد 2 کروڑ 98 لاکھ جبکہ جنگ 85 لاکھ 3 ہزار، ایکسپریس دو ویب ہیں پہلی پر 53 لاکھ جبکہ دوسری پر 16 لاکھ، اسی طرح نوائے وقت کے نیٹ پر قائین ہیں 2 لاکھ 74 ہزار، جنگ گروپ کے سابق گروپ ایڈیٹر محمود شام نے اس نمائندہ کے سوال پر اخبارات کے معیار کو زوال پذیر معاشرہ کا آئینہ قرار دے چکے ہیں اور پاکستان میں اردو صحافت کے امام "جنگ” کی خبروں کی گراوٹ پر انہوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے، اور اسے مالکان کے مفادات کی ہوس قرار دیاہے ان کا کہناہے کہ اکثر اخباری مالکان نے ٹی وی چینل نکال لیے جس کے اخراجات کم اور کمائی زیادہ ہے جبکہ اس کی نسبت اخبار کی کمائی کم ہے، جنگ اور ڈان سمیت چند دیگر اخبارات کے اشتہاری شعبے اس قدر فعال ہیں کہ اتوار کو انہیں بڑی تعداد میں عوامی دلچسپی کے حامل اشتہارات ملتے ہیں جس کی وجہ سے اس روز کی اشاعت میں ہزاروں کا اضافہ ہوجاتا ہے، 98 فیصد اخبارات اس شعبہ میں بھی ناکام ہیں واضع رہے کہ ملک بھر میں آج بھی ڈیڑھ لاکھ سے زائد اخبارات و رسائل رجسٹر ہیں اور ان کی ایک خاصی بڑی تعداد وفاقی اور چاروں صوبائی حکومتوں سے سرکاری اشتہارات بھی حاصل کرہی ہے صحافتی تنظیموں کے نزدیک زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ ایسے چند اخبارات جو ماضی میں لاکھوں کی اشاعت رکھتے تھے اب چند سو چھپ رہے ہیں سندھ کی وزارت اطلاعات کے ایک ناراض افسر کا کہنا ہے کہ ایسے چند اخبارات جو ماضی میں چاروں صوبوں میں لاکھوں کی تعداد میں چھپ رہے تھے اب صرف سرکاری ریکارڈ کا پیٹ بھرنے کو چند سو چھپ رہے ہیں مگر سرکاری اور نجی اشتہارات کا ماضی کی طرح ہی اپنا کوٹہ پورا حاصل کرہے ہیں جبکہ اس سلسلہ میں دو بڑے صحافی رہنمائوں خورشید عباسی اور امتیاز خان فاران سے کیے گئے الگ الگ رابطوں میں انہوں نے ایسے ہی اداروں کو صحافیوں کے روزگار کا اصل قاتل قرار دیاہے ان کا کہناہے کہ وہ صحافت کے نام پر تمام حکومتی مراعات اور اشتہارات چاہے وہ نجی ہوں یا سرکاری کا بڑا حصہ حاصل کرہے ہیں جس سے ان کے خاندانوں کی عیاشیاں دیکھی جا سکتی ہیں مگر ان اداروں کو پوری جوانیاں دینے والے پیشہ ور صحافیوں کو یک جنبش قلم نکال باہر کیا گیاہے جس سے ملک بھر میں عموما اور کراچی میں خصوصا صحافی برادری میں بے روزگاری کی بدترین لہر آئی ہوئی ہے اور بڑی تعداد میں ملازمتوں سے محرومی کے سبب بیشتر صحافیوں کی صدمہ سے اموات ہورہی ہیں یا وہ متعدی بیماریوں میں مبتلا ہوچکے ہیں جس کے ذمہ دار یہی ادارے ہیں جن کا بہر حال احتساب ہونا چاہیے اس نمائندہ کی جانب سے فروری سے جولائی 2025 کے درمیان اخبارات کے زوال پر سروے میں کراچی کے اکثر چھوٹے بڑے اخبارات کے ایجنٹوں سے رابطے کرکے ان کی کراچی میں فروخت کے جو اعدادو شمار اکٹھے کیے گئے ہیں اور ان کی تصدیق نیو چالی کے مرکزی ڈپو کے علاوہ علاقائی ڈپوز اور تین بڑی پرنٹنگ پریس سے بھی کی گئی ہے اس کے مطابق روزنامہ جنگ کی اشاعت 14 ہزار 500 کے ساتھ قیمت 30 روپے ہے جبکہ اتوار کی اشاعت 38 ہزار اور قیمت 35 روپے ہے روزنامہ ایکسپریس اتوار کی اشاعت 9 ہزار اور قیمت 40 روپے جبکہ عام ایڈیشن 8000 ہزار کی اشاعت کے ساتھ شائع ہو رہا ہے روزنامہ امت عام دنوں میں 9000 ہزار جبکہ اتوار کو 11 ہزار کی اشاعت کے ساتھ قیمت 30 روپے،مزید برآں ریاست کی قیمت 20 روپے اور اشاعت 6 ہزار 200 ہے۔ قومی اخبار 7 ہزار 100، روزنامہ آغاز 3500 سو، جناح 2 ہزار،
دنیا 3 ہزار 400 کی اشاعت 30 روپے جسارت 1500 سو جبکہ اتوار کو 1800 سو، نوائے وقت اور خبریں بالترتیب 250 اور اتوار کو 500 سو، اوصاف 1200 سو، روزنامہ امن 500 سو، جرئت 700 سو، علاوہ ازیں دیگر اخبارات میں اسلام، حریت، جہان پاکستان، 200 سے 300 تک، نئی بات 400 سو، سندھی اخبارات میں کاوش 2 ہزار کی اشاعت کے ساتھ 40 روپے میں دستیاب ہے، پھنجی اخبار 450، عوامی آواز 300 سو اسی طرح ہفت روزہ سوبھ 70 کی اشاعت اور 40 روپے قیمت کے ساتھ شائع ہوتا ہے، انگریزی روزنامہ ڈان کی اتوار کی اشاعت حیرت انگیز حدتک 18 ہزار ہے اور قیمت 50 روپے، جبکہ عام دنوں میں 13 ہزار اشاعت اور قیمت 35 روپے، جبکہ اس کے مقابل دی نیشن کی اشاعت 250 اور قیمت 40 روپے، ٹریبیون 1 ہزار 200 اور دی نیوز کی اشاعت 1 ہزار 100 اور قیمت 45 روپے ہے،
اس سروے کے لیے مارچ 2025 سے جون 2025 تک شہر کے مختلف اسٹالز کا معائنہ کیا گیا جبکہ نیو چالی کےمرکزی ڈپو سمیت اورنگی ٹائون، کورنگی، لانڈھی، ملیر، قائدآباد، ریگل صدر، ایف بی ایریا، لیاقت آباد، ناظم آباد، نیو کراچی، گڈاپ اور سرجانی ٹائون کے چھوٹے بڑے ڈپوز اور مرکزی اسٹالز سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق یہاں یہ جاننا بھی ضروری ہوگا کہ اخباری طباعت کے زوال کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ہماری نوجواں نسل مطالعہ سے دور ہوگئی ہے یا انہیں ملکی و بین الاقوامی حالات و واقعات سے سروکار نہیں کیونکہ جن اخبارات و رسائل کی طباعت میں اشاعت گری ہے اس سے کئی گنا نیٹ پر ان کی مانگ بڑھ گئی ہے بڑے اخبارات کے ایک اہم ایجنٹ احمد حسین اس کی وجہ مہنگا اخباری کاغذ اور طباعت کے ہوش ربا اخراجات کو قرار دیتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ اشاعت کا زوال مصنوعی ہے کیونکہ مالکان کو بڑھتی اشاعت سے نقصان ہوتاہے اخبار کی قیمت سے اس کے اخراجات پورے کرنا تقریبا ناممکن ہوچکا ہے اور یہی وجہ تیزی سے اخباری اشاعت کا زوال بنی ہے، سی پی این ای کے ایک دھڑے کے سربراہ اور ممتاز صحافی جبار خٹک کہتے ہیں کہ اس موضوع پر کتاب بھی ناکافی ہوگی تاہم بنیادی وجہ انہوں نے چند مخصوص بڑے اخباری گروپوں کا اس شعبہ پر قبضہ قرار دیا جن کا نجی اور سرکاری اشتہارات پر بھی اختیار ہے اور مخصوص مفادات کے تحت وہ اخباری صنعت کو ارادتا زوال کی طرف لے کر جارہے ہیں انہوں نے بھارت اور دیگر پڑوسی ممالک کا حوالہ دیتے ہوے کہاکہ کہیں بھی اخباری صنعت اس قدر تیزی سے زوال پذیر نہیں ہوئی ہماری اسٹبلشمنٹ کو بھی انہوں نے اخباری زوال کی ایک وجہ قرار دیا جو روز بروز خبر کا گلا گھونٹ رہی ہے اور خبر نہ ہونے کی وجہ سے بھی قارئین مایوس ہورہے ہیں جبکہ سوشل میڈیا اسی وجہ سے طاقت پکڑ رہاہے ایک سوال پر انہوں نے مہنگے کاغذ اور طباعت کے اخراجات کو بھی اس کی ایک بڑی وجہ تسلیم کیا، قومی اخبار گروپ کے چیف ایڈیٹر اسد شاکر کہتے ہیں خبر کی سوشل میڈیا پر منتقلی بڑی وجہ ہے یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر آج پائی گئی خبر اخبار میں دوسرے روز ملنے لگی ہے جس سے قاری کا اعتماد مجروح ہوا اور یوں دیگر مسائل سمیت اشاعت زوال پذیر ہوتی گئی۔