
ریاض (خصوصی رپورٹ ) پاکستان اور سعودی عرب کے مابین طے پانے والے مشترکہ دفاعی معاہدے نے خطے کی سکیورٹی صورتِ حال میں نمایاں تبدیلی کا عندیہ دیا ہے۔ معاہدے کے متن اور متعلقہ ذرائع کے مطابق اس فریم ورک کے تحت پاکستان سعودی عرب میں بڑی تعداد میں فوجی دستے، جدید اسلحہ اور نگرانی کے جدید نظام تعینات کرے گا جبکہ دونوں ممالک کے دفاعی اداروں کے مابین مشترکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول کا قیام بھی شامل ہے۔ زرائع کے مطابق معاہدے کے ابتدائی مرحلے میں پاکستان کے قریبا پچاس ہزار فوجی اہلکار سعودی عرب میں تعینات کیے جانے کا امکان ہے، جن میں مختلف بری، فضائی اور میزائل یونٹس شامل ہوں گے۔ اس کا مقصد مقدس مقامات مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے دفاع کو خاص طور پر تقویت دینا بتایا گیا ہے۔
معاہدے کے تحت پاکستان متعدد میزائل رجمنٹس قائم کرے گا — جن میں بیلسٹک، کروز اور متعدد ہدف ایک ساتھ نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائل شامل ہو سکتے ہیں اور دفاعی صلاحیت بڑھانے کے لیے جدید ایئر ڈیفنس اور ائیر کمیونیکیشن سسٹمز نصب کیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں پاکستان اور چین کے درمیان تقریباً 406 ملین ڈالر کی لاگت سے تیس کی بجائے بیس سے زائد سیٹلائٹس خریدنے/قائم کرنے کے معاہدے کی خبریں بھی سامنے آئی ہیں جو علاقے کی نگرانی صلاحیتوں کو بڑھائیں گی۔
ذرائع یہ بھی بتاتے ہیں کہ پاکستان کی جانب سے جے ایف-17 تھنڈر لڑاکا طیارے اور 10 سی طیاروں سمیت فضائی صلاحیتیں مشترکہ فضائی قوت کا حصہ بنائی جا سکتی ہیں، جبکہ نئی ائربیسز اور ریئرنگ سہولتیں بھی قائم کی جائیں گی تاکہ مشترکہ آپریشنز کو سہولت میسر ہو۔
دونوں فریقین ایک مشترکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے قیام پر متفق ہوئے ہیں جس کے ذریعے فوراً عملی کارروائی کے لیے دونوں ممالک کی افواج بیک وقت اور مربوط انداز میں حرکت میں آسکیں گی، اس کا مقصد یہ بتایا گیا ہے کہ کسی ایک ملک پر حملے کی صورت میں دوسرے ملک سے علیحدہ علیحدہ درخواست کرنے کی ضرورت نہ رہے۔
سیٹلائٹس کے حوالے سے شائع شدہ رپورٹس کے مطابق پاکستان نے چین کی کمپنی PIESAT کے ساتھ تقریباً 406 ملین ڈالر کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس میں ابتدائی طور پر 20 کے قریب ابلاغی اور ایمیجنگ سیٹلائٹس شامل ہیں اس کا ہدف خطے کی فضائی/ریموٹ سینسنگ صلاحیتوں کو مضبوط کرنا بتایا گیا ہے۔ یہ معاہدہ علاقائی نگرانی اور دفاعی روٹس کے تحفظ میں کام آئے گا۔
اس معاہدے اور اس سے وابستہ شراکت داریوں نے عالمی سطح پر ردِعمل بھی حاصل کیا ہے، بعض پڑوسی ممالک اور بین الاقوامی مبصرین نے اس کے جیو-اسٹریٹجک مضمرات اور ممکنہ اثرات پر تبصرے کیے ہیں، جبکہ پاکستانی حکام نے اسے دفاعی نوعیت کا اور علاقائی استحکام کی غرض سے طے پایا ہوا قرار دیا ہے۔
متاثرین اور حکومتی فوجی ذرائع کے مطابق معاہدے پر عمل درآمد کے لیے پاکستانی حکام کا ایک وفد چند روز میں سعودی عرب جا کر تکنیکی اور عملی معاملات پر کام شروع کرے گا اور منصوبہ بندی کے مطابق اس منصوبے کے ابتدائی فیز کو ایک سال کے اندر مکمل کرنے کی کوشش ہوگی تاہم عمل درآمد کی حقیقی تاریخیں اور تفصیلی شیڈول دونوں ممالک کی جانب سے باقاعدہ اعلانات میں درج کیے جائیں گے۔