نمبروں سے حقیقت تک؛ کراچی کے تعلیمی معیار کا تجزیہ

اوسط نمبر اور گریڈز میں غیر معمولی بہتری کے باوجود، عملی اور تحقیقی صلاحیت کا فقدان برقرار ہے

تعلیم کسی بھی مہذب اور ترقی پذیر قوم کی بنیاد ہے۔ یہ نہ صرف فرد کو شعور، مہارت اور اخلاقیات دیتی ہے بلکہ قومی معیشت، سماجی ترقی اور عالمی شناخت کا تعین بھی کرتی ہے۔ آج کی دنیا میں جس قوم نے تعلیم کو اولین ترجیح دی، وہ معاشی خوشحالی اور فکری قیادت کے منصب پر فائز ہوئی۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور تعلیمی مرکز کراچی میں یہ ذمے داری کراچی بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (BSEK) اور بورڈ آف انٹرمیڈیٹ ایجوکیشن (BIEK) پر عائد ہوتی ہے، جو ہر سال لاکھوں طلبا کے تعلیمی مستقبل کے فیصلے کرتے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے نتائج اور معیار واقعی اس وژن کی عکاسی کرتے ہیں جو ہم نے اپنی نسلِ نو کےلیے سوچا تھا؟

کراچی بورڈ کا پس منظر اور ذمے داریاں

کراچی بورڈ کی بنیاد اس مقصد کے ساتھ رکھی گئی کہ شہر کے طلبا کو ایک ایسا امتحانی نظام فراہم کیا جائے جو شفاف، منظم اور عالمی معیار سے ہم آہنگ ہو۔ اس کے بنیادی فرائض میں شامل ہیں:

نصاب کے مطابق معیاری سوالیہ پرچوں کی تیاری
امتحانات کا منصفانہ اور شفاف انعقاد
ممتحنین کی پیشہ ورانہ تربیت اور نگرانی
مقررہ وقت پر درست نتائج کا اعلان
اسناد اور سرٹیفکیٹس کی فراہمی
یہ تمام امور کاغذ پر نہایت متاثر کن دکھائی دیتے ہیں، مگر زمینی حقائق ایک مختلف تصویر پیش کرتے ہیں، جہاں چیلنجز اور عملی رکاوٹیں معیار کو کمزور کر دیتی ہیں۔

موجودہ صورتِ حال اور چیلنجز

گزشتہ چند برسوں میں کراچی بورڈ کو ایسے مسائل کا سامنا رہا ہے جنہوں نے طلبا، والدین اور تعلیمی ماہرین کے اعتماد کو متزلزل کردیا، مثلاً:

پرچے لیک ہونا، جس سے میرٹ کا اصول متاثر ہوتا ہے
نتائج میں تاخیر، جس سے طلبا کے تعلیمی اور پیشہ ورانہ منصوبے رک جاتے ہیں
مارکنگ میں غیر یکسانیت، تربیت یافتہ ممتحنین کی کمی کے باعث
سائنس، ریاضی اور انگریزی میں کمزور کارکردگی
امتحانی نظام میں جدید ٹیکنالوجی کا فقدان

دہم جماعت سائنس گروپ 2025 ؛ نتائج کی جھلک

اس سال میٹرک سائنس گروپ کے سالانہ امتحانات کے نتائج کا اعلان چیئرمین میٹرک بورڈ غلام حسین سوہو نے کیا۔ کامیابی کا تناسب 83.93 فیصد رہا۔

اعداد و شمار کچھ یوں ہیں:

کل رجسٹرڈ امیدوار: 173,738
امتحان میں شریک: 172,391
غیر حاضر: 1,347
ناکام: 27,244

کامیاب امیدواروں میں:

A1 گریڈ: 30,154
A گریڈ: 50,346
B گریڈ: 39,691
C گریڈ: 20,614
D گریڈ: 3,841
E گریڈ: 35
پوزیشن ہولڈرز میں:

1. عینا فاروقی (مونٹیسوری کمپلیکس ہائی اسکول، گلشن اقبال) — 94.73%

2. وانیہ نور (پائنیر گرامر اسکول، اورنگی ٹاؤن) — 94.09%

3. سید اذکار حسین رضوی (سول ایوی ایشن ماڈل اسکول، ایئرپورٹ) اور عمائمہ ظفر (دی اسمارٹ اسکول، ملیر ہالٹ) — 94%

یہ نتائج جہاں طلبا کی محنت اور قابلیت کی نشانی ہیں، وہیں یہ اس حقیقت کو بھی اجاگر کرتے ہیں کہ اوسط نمبر اور گریڈز میں غیر معمولی بہتری کے باوجود، عملی اور تحقیقی صلاحیت کا فقدان برقرار ہے۔


تعلیمی معیار پر اثر انداز ہونے والے عوامل

اساتذہ کی جدید تربیت کا فقدان
پرانا نصاب جو عالمی رجحانات سے ہم آہنگ نہیں
رٹہ سسٹم کی حوصلہ افزائی
ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل لرننگ کا محدود استعمال
تحقیقی و عملی سرگرمیوں کی کمی


اصلاحات اور تجاویز

سوالیہ پرچوں کی تیاری Bloom’s Taxonomy کے مطابق
اساتذہ کی سالانہ تربیت لازمی قرار دینا
ڈیجیٹل مارکنگ سسٹم کا نفاذ
نتائج بر وقت جاری کرنے کی پابندی
پروجیکٹ بیسڈ لرننگ اور عملی تجربات کا فروغ
کیرئیر کاؤنسلنگ پروگرامز
آن لائن امتحانی نگرانی سسٹم

کراچی بورڈ کے نتائج محض نمبروں کا کھیل نہیں، بلکہ یہ ہمارے تعلیمی ڈھانچے کا عکس ہیں۔ اگر ہم نے تدریسی معیار، امتحانی شفافیت، نصابی اصلاحات اور ٹیکنالوجی کے استعمال پر فوری توجہ نہ دی تو ہم اپنی آنے والی نسل کو عالمی مسابقت کےلیے تیار نہیں کرسکیں گے۔ آج کا قدم ہی کل کی کامیابی کا ضامن ہوسکتا ہے، ورنہ ہم صرف سند یافتہ مگر مہارت سے خالی نوجوان پیدا کرتے رہیں گے اور یہ کسی بھی قوم کےلیے سب سے بڑا خسارہ ہے۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*