
*داستانِ شجاعت: 4اگست، یوم شہداء پولیس*

*(سندھ پولیس کے عظیم شہید سب انسپیکٹر محمد شاہد کی لازوال قربانی کی یاد میں)*
آج پھر دل و دماغ پر ایک نام نقش ہوا، سب انسپپیکٹر **محمد شاہد**۔ جن کی لازوال قربانی نے سندھ پولیس کا سورج چمکایا۔ یہ داستانِ شجاعت شروع ہوتی ہے 29جون 2020کی صبح سے، جب کراچی کا پاکستان اسٹاک ایکسچینج، جو ملکی معیشت کی دھڑکن کہلاتا ہے، دہشت کے ہاتھوں نشانہ بنا۔
اس صبحِ پیر کے دن کاروباری ہفتے کی شروعات تھی۔ سورج اپنی کرنیں بکھیر کر شہرِ قائد کو جگا رہا تھا۔ ہفتے کی پہلی صبح، نئی امیدوں کا پیغام لاتی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج کے دروازوں پر سرمایہ کاروں اور ملازمین کا رش تھا۔ دوسری طرف، سندھ پولیس کے سب انسپیکٹر محمد شاہد بھی اپنے بچوں کے ساتھ گزارے ہوئے پیار بھرے لمحات کو دل میں سمیٹے، وردی پہن، بندوق کندھے پر ڈال،اسٹاک ایکسچینج پر ڈیوٹی کے لیے روانہ ہو چکے تھے۔ گرمی کا ذکر کرتے، ساتھیوں سے معاشی دکھڑے کہتے، مگر آنکھوں میں وہی چمک تھی جو ہر محافظ کی پہچان ہے۔ ذہن میں آتی تھیں بیوی کی مسکراہٹیں، بچوں کے وعدے، آنے والی چھٹیوں کی منصوبہ بندی… اور پھر اچانک صبح کے دس بج کر دو منٹ پر ایک سفید گاڑی اسٹاک ایکسچینج کے گیٹ پر رکی۔اسٹاک ایسچینج میں اس وقت کم و بیش ایک ہزارسے زائد لوگ موجود تھے جو کاروباری سرگرمیوں میں مصروف عمل تھے۔
چند لمحوں میں قیامت ٹوٹ پڑی۔ چار مسلح دہشت گردوں نے دستی بم پھینکے، اندھا دھند فائرنگ کا بازار گرم کر دیا۔ کلاشنکوفیں، گرینیڈز، راکٹ لانچرز… ان کا منصوبہ تھا چہار سو تباہی پھیلانا، ملکی معیشت کو مفلوج کرنا۔ مگر اُنہیں کیا خبر تھی کہ آج اُن کا پالا سندھ پولیس کے سورماؤں سے پڑے گا۔ دہشت گردوں نے اپنی نقل وحرکت اور مسلسل فائرنگ تیز کردی۔
چشمِ زدن میں فائرنگ اوردھماکوں کی آوازیں عمارت اور اطراف میں گونجنا شروع ہوگئی۔ تھوڑی دیرکے لئے اندرونی ماحول دہشت زدہ ہوگیا لیکن اسی لمحے محمد شاہد آگے بڑھے! پہلی گولی کی آواز سنتے ہی، محمد شاہد نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر دہشت گردوں کا سامنا کیا۔ اُن کی بہادری نے پل بھر میں دوسرے جوانوں کو پوزیشن سنبھالنے کا موقع دے دیا۔ ریپڈ رسپانس فورس (آر آر ایف) کے جوانوں نے پوزیشن سنبھال لی، دیگرچھتوں پر چڑھے، اسنائپرز نے دشمن کی ہر حرکت پر نظر رکھی۔ محمد شاہد اور دیگر پولیس اہلکاروں نے دہشت گردوں کو عمارت میں داخل ہونے ہی نہ دیا۔اور یوں بنا خلل کاروباری سرگرمیاں جاری رہیں ۔
صرف آٹھ منٹ! یہی وہ مختصر دورانیہ تھا جب چاروں دہشت گردوں کے ناپاک عزائم خاک میں مل گئے۔ پورا آپریشن بیس منٹ میں مکمل ہوا۔ سندھ پولیس کی پیشہ ورانہ مہارت، سبک رفتاری اور جواں مردی نے ایک بڑے سانحے کو روک لیا۔ مگر اس فتح کی قیمت بھاری تھی۔ محمد شاہد نے جاں بازی کی تاریخ رقم کرکے اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی ۔ ان کے ساتھ سیکیورٹی گارڈز اور معصوم شہری بھی شہید ہوئے اور زخمی ہوئے۔
محمد شاہد کی قربانی نے نہ صرف قیمتی جانیں بچائیں، بلکہ ایک عظیم مثال قائم کی۔ ان کا بڑا بیٹا تنویر کہتا ہے: "سر، میرے ابو نے شہادت کے بعد بھی وہ خواب پورا کیا جو ریٹائرمنٹ کے لیے چھوڑا تھا۔والد صاحب اپنی چھت کا خواب پورا کرنا چاہتے تھے لیکن ان کا خواب شہادت کے بعد سندھ حکومت نے پورا کیا میں سندھ پولیس کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میرے والد نے شہادت پا کر بھی اپنا خواب پورا کر دکھایا۔
اس کارنامے پر انسپکٹر جنرل سندھ پولیس نے بہادری کے لیے بیس لاکھ روپے بطور انعام محمدشاہد کو دینے کا اعلان کیا۔ گورنر سندھ نے شہداء کے اہل خانہ کو اعزازات اور نقد رقم سے نوازا۔ آر آر ایف کے سپاہی محمد رفیق سومرو سمیت چھ جوانوں کو بھی خصوصی اعزازات دیے گئے۔
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے اسے سندھ پولیس کی تربیت اور جذبۂ قربانی کا منہ بولتا ثبوت قرار دیا۔ یہ کارنامہ صرف سندھ پولیس ہی نہیں، پوری قوم کے لیے فخر کا باعث ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج،کراچی پر حملہ دہشت گردی کی مکروہ چال تھی، مگر محمد شاہد جیسے سرفروشوں نے ثابت کر دیا کہ پاکستان کے محافظ اپنی جان کی بازی لگا کر بھی ملک کی سلامتی کو سب ذاتی مفادات پر فوقیت دیتے ہیں۔ اُن کی قربانی ہمیں متحد ہو کر دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر ہونے کا پیغام دیتی ہے۔
4 اگست یومِ شہداء پولیس بھی ان پولیس جوانوں کو بھرپورخراج عقیدت پیش کرنا ہے جنہوں نے صوبے اور اس ملک کے امن و امان اور ناموس کی خاطر اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے اور اس کارِ عظیم کو مسلسل دوام بخش رہے ہیں۔ یہ پولیس سروس ان شہیدوں کی خون کی امانت ہے اور اس میں جذبہ قربانی اور شہادت انشاء اللہ کبھی کم نہیں ہوگا۔ انشاللہ
شہید کبھی مرتے نہیں، وہ قوموں کے دلوں میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں۔اللہ تعالیٰ تمام شہداء کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام اور اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔ آمین۔
ختم شد#