کے الیکٹرک کو بجلی کی فی یونٹ قیمت ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہونے پر تنقید کا سامنا

کراچی میں مہنگی بجلی کی گونج قومی اسمبلی میں بھی سنائی دینے لگی اور ملک بھر سے قیمت زیادہ ہونے پر بحث ہوئی، کے الیکٹرک کو بجلی کی فی یونٹ قیمت ملک کے دیگر علاقوں کی نسبت زیادہ ہونے پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ کمیٹی نے نیپرا سے بجلی قیمتوں سے متعلق تفصیلات اور الیکٹرک سے مہنگی بجلی سے چھٹکارے کے لیے اقدامات پر تفصیلی رپورٹ طلب کرلی۔
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی صنعت وپیداوار کا اجلاس چیئرمین کمیٹی حفیظ الدین کی زیر صدارت ہوا، اجلاس میں کے الیکٹرک کی جانب سے انڈسٹری کے لیے ٹیرف بجلی فراہمی کا معاملہ زیربحث آیا۔
رکن کمیٹی سید رضا گیلانی نے کہا سنا ہے کہ کے الیکٹرک کے سی ای او مونس علوی سی ای او نہیں رہے، صوبائی محتسب کے کسی فیصلے کی روشنی میں ان کو ہٹا دیا گیا ہے۔
چئیرمین کمیٹی نے کہا کہ سی ای او کے الیکٹرک کا معاملہ الگ ہے اس کو رہنے ہی دیں، کراچی حب اور لسبیلہ کے لیے بلنگ 39.6 روپے بنیادی یونٹ ہے، باقی پورے ملک کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت 28 روپے تک ہے۔
کے الیکٹرک حکام نے جواب میں بتایا کہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ بنیادی قیمت میں اتنا فرق ہو، جس پر چئیر مین کمیٹی سید حفظ الدین نے کہا کہ اخبارات میں چھپ رہا ہے آپ دیکھ لیں، کے الیکٹرک کو اپنے مفاد کے خلاف کچھ نظر نہیں آتا، نیپرا کے ڈیٹا کے مطابق بھی قیمتیں ایسے ہی ہیں۔
کے الیکٹرک حکام نے کہا کہ ہم ان اعدادوشمار کو دیکھ لیتے ہیں 11 روپے تک فی یونٹ کا فرق نہیں ہو سکتا۔
نیپرا حکام نے بتایا کہ پورے ملک میں فی یونٹ بنیادی قیمت ایک ہی ہے، یونیفارم ٹیرف کے تحت پورا ملک ایک ہی قیمت کا تعین ہوتا ہے۔
پاور ڈویژن حکام نے کمیٹی کو بتایا کہ کراچی کے لیے باسکٹ بجلی کا ریٹ تقریباً 39 روپے بنیادی یونٹ کا تعین ہوا، کے الیکٹرک کی بجلی کی پیداوار وفاق سے مہنگی ہے، بنیادی ٹیرف میں کنزیومر کے لیے فرق کو ختم کرنے وفاق سبسڈی فراہم کرتا ہے۔
قائمہ کمیٹی صنعت و پیداوار نے بجلی قیمتوں سے متعلق تفصیلات طلب کر لیں جبکہ مہنگی بجلی سے چھٹکارے کے لیے اقدامات پر بھی تفصیلی رپورٹ کے الیکٹرک سے طلب کی گئی ہے۔
کمیٹی اجلاس میں یوٹیلٹی اسٹورز بندش کا معاملہ بھی زیر بحث آیا۔ رکن ممبر اعجاز جاکھرانی نے کہا کہ لوگ احتجاج کررہے ہیں بے روزگار ہوگئے کدھر جائیں، متعلقہ وزیر نے ہمارے ساتھ اسٹورز فلور آف ہاوس نہ بند کرنے کا وعدہ کیا، ابھی سٹورز بند کردیے گئے لوگ سراپا احتجاج ہیں ان کے چولہے ٹھنڈے ہوگئے، 18 سال سے لوگ کنٹریکٹ پر کام کررہے تھے ان کے ملازمین کے ساتھ دھوکا ہوا۔
سیکرٹری انڈسٹری نے کہا ہر سال 18 ارب کی سبسڈی دینی پڑتی تھی، 8 ارب کا سالانہ نقصان تھا، اس لیے گزشتہ سال سبسڈی بند کی گئی، جو ملازمین ہیں ان کے لیے وی ایس ایس پیکج کی تجویز دی گئی ہے، یہ فیصلہ ہوچکا ہے کہ یوٹیلٹی اسٹورز بند ہوں گے۔
قائمہ کمیٹی نے یوٹیلیٹی اسٹورز کی بندش پر 24 گھنٹے میں تفصیلی رپورٹ طلب کر لی، وزارت صنعت و پیداوار تمام تر تفصیلات تحریری صورت میں فراہم کرے، جو بھی فیصلے کیے گئے ان فیصلوں پر عملدرآمد سے متعلق تفصیلات بھی طلب کی گئی ہیں۔