
کراچی (خصوصی رپورٹ) کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن میں نئے چیف ایگزیکٹو آفیسر (CEO) کی تقرری کا اعلان کر دیا گیا، مگر باقاعدہ نوٹیفکیشن تاحال جاری نہیں کیا جا سکا۔ ذرائع کے مطابق ادارے کے بورڈ نے احمد علی صدیقی کے نام کو CEO کے لیے حتمی طور پر منظور کر لیا ہے، تاہم اب تک ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا، جس کی وجہ شہر بھر میں اس تقرری پر اٹھنے والی تنقید بتائی جا رہی ہے۔
تنقید کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ احمد علی صدیقی کا پس منظر نان ٹیکنیکل ہے، اور انہیں واٹرکارپوریشن جیسے تکنیکی اور انجینئرنگ سے وابستہ اہم ادارے کا سربراہ بنانا نہ صرف ادارے کے مفاد کے خلاف سمجھا جا رہا ہے، بلکہ بعض ماہرین اور حلقوں کی رائے میں یہ عدالتی احکامات کی بھی خلاف ورزی ہے، جو سرکاری اداروں میں تقرریوں کے لیے میرٹ اور پیشہ ورانہ اہلیت کو لازم قرار دیتے ہیں۔
واٹرکارپوریشن پہلے ہی بدترین انتظامی و تکنیکی بحران سے دوچار ہے اور شہری حلقے و ماہرین اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ایسے وقت میں جب شہر کو پانی کی قلت، پرانی پائپ لائنوں، سیوریج کی ناقص حالت اور بجلی کی بندش جیسے چیلنجز کا سامنا ہے، ادارے کی قیادت کسی ماہر اور تجربہ کار انجینئر کے ہاتھوں میں ہونی چاہیے تھی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ احمد علی صدیقی نے خود بھی ادارے کے اندر پائے جانے والے تکنیکی خلاء کو محسوس کرتے ہوئے حکومت سندھ سے فوری طور پر ایک ماہر ٹیکنیکل ایڈوائزر کی تعیناتی کی درخواست کی ہے، تاکہ وہ تکنیکی امور میں رہنمائی حاصل کر سکیں۔
اس صورتحال پر واٹر کارپوریشن سے وابستہ سابق افسران، شہری تنظیمیں اور سول سوسائٹی بھی سراپا احتجاج ہیں۔ ماہرین کا مطالبہ ہے کہ تقرریوں میں سیاسی مداخلت بند کی جائے، اور ادارے میں صرف پیشہ ور، باصلاحیت اور اہل افراد کو ہی تعینات کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر واٹر کارپوریشن جیسے اہم ادارے کو بھی سیاسی بنیادوں پر چلایا گیا تو اس کے منفی اثرات نہ صرف ادارے بلکہ پورے شہر پر مرتب ہوں گے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ سندھ حکومت کیا فیصلہ کرتی ہے، کیا احمد علی صدیقی کی تقرری کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے گا، یا کسی نئے، ٹیکنیکل امیدوار کو آگے لا کر واٹر کارپوریشن کو ایک فعال، مؤثر اور ماہر قیادت فراہم کی جائے گی-
