جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، ایم کیو ایم کا پی ایم ہاؤس کے سامنے مظاہرہ اور مظاہرین پر سندھ حکومت کا لاٹھی چارج موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس واقعے کو سیاہ و سفید میں میں بانٹ کر دیکھنا سہل ہے، ظالم اور مظلوم، صحیح اور غلط؛ مگر دو انتہاؤں کے درمیان جو ’’گرے ایریا‘‘ ہے، وہ دراصل اس شہر کی موت کا روایتی تعزیت نامہ ہے۔
کراچی، جو کبھی خطے کے ماتھے کا جھومر تھا، جو ملک کی معاشی شہ رگ کہلاتا تھا، آج ملکی سیاست میں یک سر غیر متعلقہ ہوچکا ہے۔ جس شہر کی قومی اسمبلی میں سب سے زیادہ نشستیں ہیں، جو ٹیکس ادا کرنے میں پہلے نمبر پر ہے، آج حکومتی ترجحیات میں آخری نمبر پر دکھائی دیتا ہے۔
یہ شہر مر رہا ہے، دن بہ دن۔ ہر گزرتے لمحے کے ساتھ یہ دم توڑ رہا ہے۔ البتہ معالجین اس کی موت سے باخبر ہونے کے باوجود بے پروا ہیں۔ ماضی کا تو تذکرہ ہی کیا، پی ٹی آئی ہی کی بات کر لیجیے۔ اس شہر سے، غیرمتوقع طور پر پی ٹی آئی کو ارکان قومی اسمبلی کی بھاری تعداد میسر آئی۔ یہی نہیں، صدر پاکستان عارف علوی کا تعلق بھی کراچی سے ہے، گورنر سندھ عمران اسماعیل بھی اسی شہر سے، حکومت کی اتحادی جماعت، ایم کیو ایم بھی کراچی کے عوام کی ترجمان ہونے کی دعوے دار، مگر اس کے باوجود یوں لگتا ہے کہ اس شہر میں تبدیلی کے پہیے کو زنگ لگ چکا ہے۔ آوازیں خاموش ہیں۔ کراچی کی کیفیت اس بدنصیب مسافر کی سی ہے، جس کا درد قابل اجمیری نے کچھ یوں بیان کیا:
راستہ ہےکہ کٹتاجاتاہے
فاصلہ ہےکہ کم نہیں ہوتا
کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی۔ پیپلزپارٹی، جو سن 2008 سے اقتدار میں ہے، اس نے کراچی کے معاملے میں جانب دارانہ اور مایوس کن کردار ادا کیا۔ بلاول بھٹو جیسی نوجوان قیادت کی آمد بھی پی پی پی کی سیاست میں اس شہر کے لیے کوئی امکان پیدا نہیں کرسکی۔ یہاں تک کہ جب ایم کیو ایم ریاستی آپریشن کی زد پر آئی، اور ایک بڑا خلا پیدا ہوا، تب بھی پیپلز پارٹی نے آگے بڑھ کر اسے بھرنے کے بجائے اپنی روایتی سیاست ہی کو جاری رکھا۔
کراچی کے مسائل ان گنت ہیں، جن میں سب سے بڑا مسئلہ آبادی ہے۔ ہر پل، مسلسل بڑھتی آبادی کے لیے جن سہولیات کی ضرورت، وہ کم یاب ہوگئیں۔ پانی کی قلت، گیس اور بجلی کا بحران، سڑکیں شکست و ریخت اور ٹرانسپورنٹ بدحالی کا شکار۔ اسٹریٹ کرائمز پھر سر اٹھا رہے ہیں۔ شہریوں میں خوف ہے اور انفرااسٹریکچر تباہ ہوچکا ہے۔
گرین لائن کی ضرورت دیگر شہروں سے زیادہ کراچی کو تھی، مگر میاں صاحب کو سب سے آخر میں شہر قائد کا خیال آیا۔ جیسے تیسے کام شروع ہوا، تو عوام نے اطمینان کا سانس لیا، مگر میاں صاحب کی برطرفی کے بعد یہ پراجیکٹ سست روی کا شکار ہوگیا۔ پی ٹی آئی دور میں جب پراجیکٹ مکمل ہوا، تب تک مسائل مزید بڑھ چکے تھے۔ وزیر اعظم کے اعلان کردہ اربوں کے پیکیج کیا نتائج لائے، عوام لاعلم ہیں۔ ادھر اورینج لائن منصوبہ، جس کا اعلان پی پی پی کی جانب سے گرین لائن کے ساتھ ہی ہوا تھا، تاحال نامکمل ہے۔
آبادی بڑھ رہی ہے، وسائل سکڑ رہے ہیں۔ حکم راں بے پروا ہیں، اور شہر کے باسیوں کو سنجیدہ قیادت میسر نہیں۔ جماعت اسلامی کے دھرنے سے ایک ہل چل پیدا ہوئی، اور اس پارٹی کی مثبت شبیہہ ابھرنے لگی۔ ایسے میں ایم کیو ایم بھی اس میدان میں اتری۔ حکومت نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے روایتی ہتھکنڈا اپنایا۔ لاٹھی چارج کے مناظر کیمرے میں قید ہوگئے۔ خواتین اور بچے خوفزدگی چہروں پر لیے سڑکوں پر دوڑتے نظر آئے، تو چند ہی لمحوں میں یہ موضوع میڈیا اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرنے لگا۔
یہ پورا منظر، گو کرب ناک ہے، مگر کراچی کی بدبختی کے باب میں ایک روایتی منظر ہے۔ مظاہرہ اپوزیشن کا حق، مگر کراچی کے حالات اس قدر درگرگوں ہیں کہ سندھ سرکار اور وفاق کی جانب سے سنجیدہ، ٹھوس اور طویل المدتی اقدامات کے بغیر اس شہر کے بچنے کا کوئی امکان ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اس نوع کے واقعات محض تعزیت ناموں میں اضافے کے سوا کچھ نہیں۔