کوئی بھی ملک ”غیر معمولی حالات“ کی صورت میں تین ماہ کے نوٹس کے ساتھ اس معاہدے سے الگ ہو سکتا ہے

ہتھیار بنانا شروع کرتا ہے، تو:
خطے میں ایٹمی اسلحے کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے۔
دیگر ممالک بھی این پی ٹی چھوڑنے یا ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے پر غور کر سکتے ہیں۔
دنیا میں اسلحے کے عدم پھیلاؤ کا تصور کمزور ہو جائے گا۔
اسرائیل، NPT اور ایران کا اعتراض
ایران کا کہنا ہے کہ اسرائیل خود واحد مشرقِ وسطیٰ کا ایٹمی طاقت ہے، لیکن نہ تو اس نے کبھی ایٹمی ہتھیاروں کا اعتراف کیا، نہ ہی وہ NPT کا حصہ ہے۔ ایران کا یہ بھی الزام ہے کہ آئی اے ای اے کا حالیہ موقف سیاسی ہے اور اسی کے نتیجے میں اسرائیل کو ایران پر حملے کا حوصلہ ملا۔
کیا IAEA بھی تنقید کے دائرے میں ہے؟
اقوام متحدہ کی ایٹمی ایجنسی (IAEA) نے ایران پر ”شفافیت کی کمی“ کا الزام لگایا ہے اور کہا ہے کہ ایران نے بعض خفیہ مقامات پر یورینیم کے ذرات کی موجودگی کی وضاحت نہیں کی۔ ساتھ ہی ایران پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ ہائی انریچڈ یورینیم کی خطرناک مقدار جمع کر رہا ہے۔
ایران نے ان الزامات کو سیاسی قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ تمام معائنے اور پابندیاں ماضی میں طے شدہ معاہدوں کے تحت کی جا رہی ہیں۔
دنیا کو اب کیا کرنا چاہیے؟
جوہری ماہر کیلسے ڈیوینپورٹ نے الجزیرہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت سفارت کاری کو ایک اور موقع دینے کا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو دوبارہ ایران میں جانے دیا جائے۔ امریکہ، چین اور روس کو ایران کو این پی ٹی سے نکلنے سے روکنے کے لیے کردار ادا کرنا چاہیے۔انہوں نے مزید کہا کہ این پی ٹی کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے کیونکہ اس کے بغیر دنیا زیادہ غیر محفوظ ہو گی۔
ایران کا این پی ٹی چھوڑنے کا فیصلہ صرف ایک قانونی قدم نہیں، بلکہ ایک تزویراتی اعلان ہوگا۔ یہ فیصلہ عالمی ایٹمی نظام، خطے کی سیکیورٹی اور دنیا کے مستقبل کے لیے شدید اثرات رکھتا ہے۔ ایسے وقت میں جب مشرقِ وسطیٰ دھماکوں کی زد میں ہے، یہ معاہدے — چاہے کتنے ہی پرانے یا ناکام لگیں — دنیا کو ایٹمی تباہی سے بچانے کی آخری امید ہو سکتے ہیں۔
اگر ایران نکلتا ہے، تو پھر شاید بہت سے ممالک سوچیں گے: ”اگر وہ نکل سکتے ہیں، تو ہم کیوں نہیں؟“