پاک بحریہ کا عزم: سمندری سرحدوں کا دفاع اور ماحول کا تحفظ

سمندر۔۔جس کے پہلو میں کئی راز دفن ہیں، سمندر۔۔جو آنکھوں کو ٹھنڈک بھی دیتا ہے اور روح کو تسکین بھی، جس کی وسعتوں کا اندازہ لگانا ناممکن ہے، جس کی گہرائیوں میں ایک دنیا آباد ہے، سمندر جو زمین کے لیے پھیپھڑوں کا کام کرتا، انسانوں کے لیے آکسیجن مہیا کرتا ہے، کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے ماحول متوازن رکھتا ہے۔ اربوں انسانوں کے لیے خوراک، تجارت، روزگار اور حیات کا ذریعہ ہے، مگر بدقسمتی سے اسی انسان نے قدرت کے اس بیش قیمتی تحفے کو آلودہ کردیا، آبی حیات کا وجود خطرے میں ڈال دیا، ایسے میں سمندر کا طیش میں آنا، خاموش لہروں میں اضطراب پیدا ہونا اور پھر طوفانوں کا آنا تو فطری ہے۔

ہر سال 8 جون کا دن عالمی یوم بحر کے طور پر منایا جاتا ہے، وہ دن کہ جب سمندروں کی اہمیت پر بات کی جاتی ہے، سمندری تجارت، معیشت، نیلی معیشت، آبی حیات اور اس کو لاحق خطرات زیر غور آتے ہیں، پالیسیز بنائی جاتی ہیں، عہد نو کیے جاتے ہیں، منصوبہ بندیاں کی جاتی ہیں تاہم یہ زبانی جمع خرچ سے زیادہ کچھ نہیں ہوتیں، کیوں کہ سمندر یا ماحولیات کا تحفظ گول میز کانفرنسز، کاغذ کالے کرنے یا منصوبہ بندیوں سے نہیں ہوسکتا، اس کے لیے عملی اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ماحولیات کے پروگرام کے مطابق روزانہ کی بنیادوں پر پلاسٹک کے کچرے سے بھرے 2 ہزار ٹرک دنیا بھر کے سمندروں، دریاؤں اور جھیلوں میں پھینکے جاتے ہیں، جب کہ ایک اندازے کے مطابق ہر منٹ میں ایک ٹرک کے برابر پلاسٹک سمندر میں پھینکا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ ہی کے مطابق ہر سال 19 سے 23 ملین ٹن پلاسٹک کا کچرا سمندروں، جھیلوں، دریاؤں میں پھینکا جاتا ہے، جس سے یہ قدرتی عطیہ زہر آلود ہو رہا ہے اور اس کی حیات کو نقصان پہنچ رہا ہےجب کہ بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے سمندر کے پانی کا درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے۔

دوسری جانب اگر اس تناظر میں پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان کے پاس ایک ہزار کلومیٹر سے زائد طویل ساحلی پٹی اور دو لاکھ نوے ہزار مربع کلومیٹر پر محیط خصوصی اقتصادی زون موجود ہے، ہمارے ساحل، بندرگاہیں، سمندری وسائل، اور نیلے پانیوں کی معاشی و ماحولیاتی اہمیت بے پناہ ہے۔ یہاں لاکھوں افراد ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہیں، یہ صنعت ہماری معیشت کا ایک اہم حصہ ہے۔ پاکستان ہرسال سمندر سے پکڑی جانے والی کروڑوں روپے کی آبی حیات بیرون ممالک ایکسپورٹ کرتا ہے، تاہم آبی آلودگی کی وجہ سے اس میں بھی کمی آرہی ہے۔ سمندر میں آلودگی کی بنیادی وجہ فیکٹریوں سے آنے والا فضلہ ہے، جسے سمندر میں پھینک دیا جاتا ہے، جب کہ سیوریج کا پانی پلاسٹک بیگز اور پلاسٹک کی بوتلوں پر مشتمل لاکھوں ٹن کچرا بھی ہر سال سمندر کی نذر کردیا جاتا ہے۔
لیکن ان تمام حالات میں پاک بحریہ کے قابل ستائش اور مثالی کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، جو نہ صرف سمندری حدود کی حفاظت میں مصروف عمل ہے بلکہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے بھی مثالی کردار ادا کر رہی ہے۔ جس سے بلیو اکانومی کو بھی تقویت مل رہی ہے۔

دنیا تو یوم بحر سال میں ایک دن مناتی ہے لیکن پاک بحریہ ساحلی پٹی کی صفائی ستھرائی، سمندری آلودگی میں کمی کے لیے کام کر کے ہر روز، سال کے 365 دن سمندر دوست ہونے کا ثبوت دیتی ہے۔ یہی نہیں سال بھر وقتاً فوقتًا پاک بحریہ کی جانب سے صفائی مہمات اور عوامی شعور بیداری کے پروگرامز منعقد کیے جاتے رہتے ہیں۔

دنیا کو اب یہ سمجھنا ہوگا کہ سمندری سلامتی اور ماحول کا تحفظ اب ایک ہی سکے کے دو رخ بن چکے ہیں۔ قزاقی، اسمگلنگ، غیر قانونی ماہی گیری اور سمندری آلودگی جیسے خطرات اب صرف معیشت کے لیے نہیں بلکہ ماحول کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔ آج کے دور میں صرف سرحدوں کی حفاظت کافی نہیں کہ اب ماحول، آبی حیات، اور قدرتی وسائل کی حفاظت بھی قومی سلامتی کا حصہ بن چکی ہے اور پاک بحریہ ہر محاذ پر سینہ سپر نظر آتی ہے۔

اسی کے ساتھ پاک بحریہ کی جانب سے سمندری آلودگی کم کرنے کے لیے ایک انقلابی قدم یہ بھی اٹھایا گیا ہے کہ جدید بحری جہازوں میں انرجی سیونگ سسٹم، سولر سسٹم نصب کرنے کے منصوبوں پر بھی کام ہو رہا ہے، جو ہماری بحریہ کی بدلتی اور ماحول دوست سوچ کا غماز ہے۔
سمندر صرف ایک جغرافیائی حد نہیں، قدرت کا بیش قیمتی تحفہ ہے، جو ہمارے ماحول کو بھی صاف کرتا، سانس لینے کے قابل بناتا ہے اور نیلی معیشت کی صورت میں قومی خزانے کے لیے بھی اہم ہے۔ اس سے ہزاروں، لاکھوں خاندانوں کا روزگار وابستہ ہے، جب کہ ٹورازم کے لیے بھی اہم حیثیت رکھتا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ اس عظیم تحفے کو کیسے محفوظ، صاف اور زندگی بخش بنانا اور پاکستان نیوی کا بازو بننا ہے۔

اور ہاں، اگلی مرتبہ جب کسی ساحل پر جائیں، سمندر کے صاف شفاف پانی سے لطف اندوز ہوں، کسی بندرگاہ پر گزرتے جہاز کو دیکھیں، تو لمحے بھر کے لیے رُک کر پاک بحریہ کے محافظوں کو ضرور یاد کیجیے گا، جو سمندروں کے پاسبان ہیں، وہ نہ ارتعاش پیدا کرتی موجوں سے گھبراتے ہیں، نہ سخت موسم اور آندھیاں ان کے حوصلے پست کر پاتی ہیں، وہ سطح سمندر اور زیر سمندر انتہائی خاموشی سے ملک کا دفاع بھی کر رہے ہیں اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے بھی سرگرم عمل ہیں۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*