ملیر جیل سے فرار قیدی کی گھر سے پھندہ لگی لاش برآمد، موت سے پہلے ویڈیو بیان میں کیا کہا؟

مفروری کے بعد قیدی رضا روپوش تھا

کراچی کے علاقے ماڑی پور میں ایک گھر سے پھندا لگی لاش ملنے کا معاملہ حل ہوگیا۔ پولیس کے مطابق خودکشی کرنے والا شخص ملیر جیل کا مفرور قیدی نکلا، جس کی موقت سے قبل ایک ویڈیو بھی سامنے آئی ہے۔

پولیس حکام نے بتایا کہ خودکشی کرنے والے قیدی کی شناخت رضا کے نام سے ہوئی ہے، جو عیدگاہ تھانے میں منشیات کے مقدمے میں گرفتار ہوکر ملیر جیل بھیجا گیا تھا۔ رضا کے خلاف 30 مارچ 2022 کو عیدگاہ تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ملیر جیل واقعہ: ’روکنے والا کوئی نہیں تھا، تمام قیدی مین گیٹ سے باہر آئے‘: فرار کے بعد واپس آنے والے قیدی کے انکشافات

پولیس کا کہنا ہے کہ رضا ان قیدیوں میں شامل تھا جو چند دن پہلے ملیر جیل سے فرار ہوئے تھے۔ مفروری کے بعد رضا روپوش تھا اور بالآخر ماڑی پور کے ایک مکان میں اس کی لاش پھندے سے لٹکی ہوئی ملی۔

خیال رہے کہ چند روز قبل زلزلوں کے جھٹکوں کے دوران ملہیر جیل سے 200 سے زائد قیدی فرار ہوگئے تھی، جن کی مجموعی تعداد 214 بتائی گئی ہے۔ مفرور قیدیوں میں سے اب تک 119 کو دوبارہ گرفتار کر کے جیل واپس منتقل کیا جا چکا ہے جبکہ 95 قیدی تاحال مفرور ہیں۔

اکثر قیدیوں کوان کے گھر والوں نے خود واپس جیل پہنچایا۔

قیدی رضا کا وڈیو بیان آج نیوز نے حاصل کرلیا
آج نیوز نے ملیر جیل سے فرار ہونے والے قیدی رضا کا خودکشی سے قبل ریکارڈ کیا گیا وڈیو بیان حاصل کرلیا ہے۔ پولیس کے مطابق یہ وڈیو رضا نے اپنی موت سے پہلے خود بنائی تھی، جس میں اس نے اپنی بے گناہی اور جیل سے فرار کے حالات سے پردہ اٹھایا ہے۔

قیدی رضا نے اپنے بیان میں کہا، ’میں درخواست کرتا ہوں کہ مجھے رہائی دی جائے، میں بے قصور ہوں۔‘ وڈیو بیان میں قیدی رضا نے اعتراف کیا کہ وہ بھی دیگر قیدیوں کے ساتھ ملیر جیل سے فرار ہوا تھا۔ رضا نے بتایا کہ فرار کے وقت جیل کے اندر صورتحال انتہائی افراتفری کا شکار تھی۔

رضا کے مطابق، ’سب لوگ ایک دوسرے کے اوپر چڑھ کر بھاگ رہے تھے، جیل میں فائرنگ بھی ہو رہی تھی۔‘ اس نے یہ بھی کہا کہ جیل کے اندر زلزلے جیسے جھٹکے محسوس ہوئے جس کے باعث وہ جان بچانے کے لیے بھاگا۔

وڈیو بیان میں قیدی نے مزید کہا، ’جب ہم جیل سے بھاگے تو سامنے مین روڈ تھا۔‘ اس نے انکشاف کیا کہ فرار کے دوران وہ خود بھی زخمی ہوگیا تھا۔ رضا نے بتایا کہ جیل سے نکلنے کے بعد وہ کافی دیر تک پیدل چلتا رہا۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*