سندھ میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال کے ذمہ دار مراد شاہ ؟

سندھ میں ان کی مسلسل خراب کارکردگی سوالیہ نشان ہے،

دریائے سندھ سے نہروں کے خلاف احتجاج نے انہیں کمزور کردیا
کراچی (آغاخالد)وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ آج کل سخت تنائو میں دیکھے جارہے ہیں 20 مئی 2025 کو وزیر اعلی ہائوس میں بلائے گئے ایک سے زائد اجلاسوں میں وہ بہت زیادہ مشتعل دیکھے گئے، اپنے سنجیدہ مزاج کے برعکس بعض سینیر افسران پر برستے رہے اجلاسوں میں شریک کئی ایک افسران نے اس نمائندے کو بتایاکہ حیرت انگیز طور پر کئی بار ایسا لگا کہ وہ مغلوب افسر پر پل پڑیں گے جبکہ گزشتہ برسوں میں کبھی انہیں اس قدر مشتعل نہیں پایا پارٹی ذرائع کے مطابق دریائے سندھ سے نہروں کے مسلہ پر وسیع احتجاج پر ادارے اور پارٹی کی سینیر قیادت بیک وقت ان سے مایوس ہے ماسوا بلاول بھٹو کے جو پی پی کے مضبوط قلعے سندھ میں پارٹی کی سبکی اور عدم مقبولیت کی حالیہ لہر کے باوجود انہیں برقرار رکھنے پر بضد ہیںپی پی کی سینیر قیادت کی واضع اکثریت بھی سید مراد علی شاہ سے خوش نہیں اور ان کی تبدیلی کی خواہاں ہے مگر شہزادے صاحب کا مزاج ہی الگ ہے وہ اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کو تیار نہیں واضع رہے کہ دریائے سندھ سے نہروں کے معاملہ پر صوبے کی سب سے بڑی پارٹی کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا احتجاج کے دوران کئی مقامات پر وزرائ  اور ارکان اسمبلی پر حملے کیے گئے ان کے گھروں پر پتھرائو ہوا اور ایک وقت ایسا بھی آیا کہ پارٹی کی قیادت گھروں یا شہروں تک محدود ہوکر رہ گئی امن و امان کا مسلہ گھمبیر صورت اختیار کرگیا سندھ پورے ملک سے 15 روز تک کٹا رہا اور اس احتجاج سے کمزور ملکی معیشت کو اربوں روپیہ کا جھٹکا لگا اس دوران وفاق کو بھیجی گئی بیسیوں رپورٹس میں اس سب کے پیچھے وزیر اعلی کی کمزور حکمت عملی اور گورننس کو ذمہ دار ٹہرایا گیا اور اب ایک بار پھر جب انڈیا سے شدید کشیدہ ماحول ہے اور سرحدوں پر تنائو کی کیفیت ابھی برقرار ہے ایسے وقت نہروں کے نان ایشو پر مورو، نوشہرو فیروز، کنڈیارو، سکرنڈ، قاضی احمد، تک نیشنل ہائی وے بلاک کرکے اربوں روپیہ کی املاک اور گاڑیوں کو جلادیا گیا یا انہیں نقصان پہنچایا گیا، اداروں اور وفاقی حکومت کے نزدیک سندھ حکومت کے لیے سب سے زیادہ شرمناک بات یہ رہی کہ یہ ساری دہشت گردی سندھی قوم کے نام پر ایک بھارت نواز کلدم دہشت گرد تنظیم کے اعلانیہ زیر اثر کی گئی اس موقع پر اس کاروائی کو بھارتی کشیدگی کے ماحول میں ایک پیغام سمجھا جارہاہے جائے وقوعہ سے بھیجی گئی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ کھلی دہشت گردی اور لوٹ مار کو روکنے اور پولیس پر حملوں کے جواب میں 3 افراد ہلاک ہوے جن میں 2 کلعدم دہشت گرد تنظیم کے سرگرم کارکن تھے جن کی لاشیں ان کی پارٹی نے اس لیے غائب کردیں کہ وہ ایک سے زائد دہشت گردانہ مقدمات میں اداروں کو مطلوب تھے جن کا ریکارڈ موجود ہے اس کلعدم تنظیم کے جھنڈے لیے مظاہرین سر عام پاکستان کے خلاف نعرے بازی کرتے اور مختلف قومیتوں میں نفرت پھیلانے والا لٹریچر تقسیم اور تقاریر کرتے رہے اس احتجاج کاسب سے سنگین پہلو صوبے کے وزیر داخلہ کے گھر کو جلانا سمجھا جارہاہے جبکہ بعد ازاں اس کی شدت کو کم کرنے کے لیے کئی افواہیں پھیلائی گئیں جن میں مورو کے جتوئی برادران کو ملوث کرنے کی مذموم کوشش بھی کی گئی اور کہا گیا کہ وزیر داخلہ نے کچھ ہی عرصہ قبل ان کے گھروں میں گھس کر کاروائی کی تھی انہوں نے گھر جلاکر بدلہ لے لیا جبکہ ایک اور افواہ میں کچھ ایسا ہی تاثر ہالا کے مخدوموں بارے بھی دیا گیا جبکہ ایک تاثر یہ بھی پھیلانے کی ناکام کوشش کی گئی کہ مورو کے گرد زرداری گوٹھوں کے رہائشی ہی اس گھنائونے عمل میں ملوث ہیں اس طرح اس کی ڈوریں صوبائی وزرائ  میں اختلافات اور (وڈے سائیں کے نزدیک) ایک وزیر تک کھینچی گئیں مگر اب تک کی پولیس اور اداروں کی رپورٹس میں ان افواہوں کو خاطر میں لائے بغیر بھارتی اسپانسرڈ جماعت کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو اس کا ذمہ دار قرار دیا گیاہے کہا جاتاہے کہ اس شورش نما دہشت گردی کے دوران ہمیشہ کی طرح وزیر اعلی غائب رہے اور اپنے گھر اور عوام کو بچانے کے لیے وزیر داخلہ کو خود سامنے آنا پڑا مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ وزیر چاہے کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو وزیر اعلی یا وزیر اعظم کے سامنے تو پوری مشینری کا چھوٹا سا پرزہ ہی سمجھا جائے گا اس وجہ سے ہی شاید اوپر سے پڑنے والی ڈانٹ ڈپٹ سید مراد کے چڑ چڑا ہونے کی وجہ قرار دی جارہی ہے وزیر اعلی کو ان کے صوبے میں مسلسل ناکامی کا ذمہ دار نہ سمجھنے والے ذرا غور کریں اور واقعہ کی سنجیدگی کو خاطر میں لائیں تو عرض کروں اگر خدا نہ خواستہ صوبائی وزیر داخلہ ضیاالحسن لنجار کے اہل خانہ گھر میں ہوتے تو یہ حادثہ صوبے ہی نہیں ملک کے لیے کس قدر شرمندگی کا باعث بنتا کیا اس کے باوجود بھی شہزادے صاحب مصر ہوں گے سید کے سر پر تاج مزید سجانے کو۔۔؟

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*