پیٹرولیم قیمتیں کم کیوں نہیں ہوئیں؟ فائدہ کس سے پہنچا؟

پیٹرول کی قیمت میں کمی نہ کرنے کا بوجھ درمیانے اور کم آمدنی والے افراد پر پڑے گا

وفاقی حکومت نے پیٹرول کی قیمت برقرار رکھی جبکہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں معمولی کمی کی۔ صارفین کو پیٹرول کی قیمت میں 7 روپے فی لیٹر کمی کی جو امید تھی، وہ پوری نہ ہو سکی۔

وفاقی حکومت کی جانب سے عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے باوجود، مسلسل تیسری بار صارفین کو مکمل ریلیف فراہم نہیں کیا گیا جس کی انہیں توقع تھی۔ جمعرات کی رات دیر گئے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق، وزارتِ خزانہ نے صرف ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 2 روپے فی لیٹر کمی کی، جبکہ پیٹرول کی قیمت بدستور 252.63 روپے فی لیٹر برقرار رکھی گئی جو 31 مئی تک مؤثر رہیں گی۔

پیٹرول کی قیمت میں کمی نہ کرنے کا بوجھ درمیانے اور کم آمدنی والے افراد پر پڑے گا جس کا استعمال چھوٹی گاڑیوں، رکشاؤں اور موٹرسائیکلوں میں استعمال ہوتا ہے۔

حکومت نے ان قیمتوں میں کمی نہ کرنے کا فیصلہ اس وقت کیا جب آئندہ مالی سال کے بجٹ 2024-25 میں ایک قانونی خلا کے باعث آئل انڈسٹری کو تقریباً 34 ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے، حکومت نے ان لینڈ فریٹ ایکو لائزیشن مارجن (IFEM) میں اضافہ کر دیا ہے۔ پیٹرولیم ڈویژن کی تجویز پر، IFEM میں 1.87 روپے فی لیٹر اضافہ کیا گیا، تاکہ ریفائنریوں اور آئل مارکیٹنگ کمپنیوں (OMCs) کو ہونے والے نقصانات کی تلافی کی جا سکے۔

مالی نقصان اس وقت پیدا ہوا جب نئی فنانس ایکٹ کے تحت پیٹرولیم مصنوعات کو ”مستثنیٰ“ قرار دے دیا گیا، جس کے بعد ریفائنریوں اور OMCs کے لیے ان پٹ سیلز ٹیکس کی واپسی ممکن نہ رہی۔ 34 ارب روپے کا یہ شارٹ فال 12 ماہ میں IFEM کے ذریعے پورا کیا جائے گا، اور 13ویں ماہ میں اس کا ازخود خاتمہ ہو جائے گا۔

فی الوقت، حکومت پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل دونوں پر تقریباً 96 روپے فی لیٹر ٹیکس وصول کر رہی ہے۔ اگرچہ تمام پیٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس صفر ہے، لیکن پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی 78 روپے فی لیٹر ہے، جو عوام پر براہ راست اثر ڈالتی ہے۔ مزید برآں، کسٹمز ڈیوٹی اور کمپنیوں و ڈیلرز کے مارجنز بھی بالترتیب 17-17 روپے فی لیٹر ہیں۔

گزشتہ دو ماہ میں، حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں تقریباً 18 روپے فی لیٹر ممکنہ کمی کو روک دیا، تاکہ استعمال میں اضافے کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ یہ اقدام صدارتی آرڈیننس کے ذریعے پیٹرولیم لیوی بڑھا کر کیا گیا، تاکہ بجلی کے نرخوں پر سبسڈی اور بلوچستان و سندھ میں موٹرویز و ہائی ویز کی تعمیر جیسے منصوبوں کے لیے فنڈز منتقل کیے جا سکیں۔

پیٹرول اور ہائی اسپیڈ ڈیزل ملک کے سب سے بڑے ریونیو ذرائع ہیں، جن کی ماہانہ فروخت 7 سے 8 لاکھ ٹن تک پہنچتی ہے، جب کہ مٹی کا تیل صرف 10 ہزار ٹن ماہانہ فروخت ہوتا ہے۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*