
آپ کی پالیسیاں تعلیم دشمن، طالب علموں کو بھکاری بنانے اور کراچی انٹر میڈیٹ بورڈ کو تباہ و برباد کرنے کی ہیں جس کی سخت مذمت کی جاتی ہے, سپلا
کراچی(اسٹاف رپورٹر)
سندھ پروفیسرز اینڈ لیکچرارز ایسوسی ایشن کے صدر منور عباس,
کراچی ریجن کے صدر رسول قاضی سمیت دیگر رہنماؤں عدیل خواجہ، نہال اختر،شبانہ افضل پروفیسر آْصف منیر، زکیہ ٹالپر، حسن میر بحر عبدالرشید ٹالانی، زاہد لطیف، کنول مجتبیٰ، محمد جمال، شفق زہرا،حبیب خان، نوید علی، سید محمد حیدر، احمد علی خان، ریاض مہدی خاصخیلی، عدنان اللہ،مقبول میمن ندیم احمد، تبسم کوثر، سید جنید علی، انور علی، شوکت علی جوکھیو، محمد ہارون، اقبال انصاری، سلطانہ سومرو، عمارہ مشتاق، نسیمہ کریم و دیگر نے فرسٹ ایئر کے طالبا و طالبات کو اضافی نمبر دینے کے فیصلے کو افسوس ناک اور غیر منطقی قرار دیتے ہوئے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ حکومت سندھ کی پالیسیاں ہماری سمجھ سے بالاتر ہیں وہ تعلیم کو سیاست کی نظر کرتے ہوئے یہاں کے طالب علموں کو بھکاری بنانے پر تل گئے ہیں۔ سپلا کے رہنماؤں نے مزید کہا کہ یہ کہاں کی منطق ہے کہ امتحانی کاپیاں خالی پڑی ہوئی ہوں اور آپ ان طالب علموں کو 15 سے 20 نمبر اضافی دے کر ان کو نہ پڑھنے کی ترغیب دیتے ہوئے نیا دروازہ کھول رہے ہیں ہر سال خراب نتائج والے طالب علم مظاہرے کریں اور ان کو اضافی نمبر دے دیے جائیں گے! سپلا کے رہنماؤں نے مزید کہا کہ اگر کراچی بورڈ کے نتائج میں کوئی گڑبڑ ہے تو واضح کیا جائے ذمہ داران کا تعین کیا جائے صرف الزامات اور اپنی ٹوپی اس کے سر والی پالیسی پر عمل نہ کیا جائے۔ سپلا کے مرکزی صدر منور عباس نے مزید کہا کہ وہ خود اس کمیٹی کا حصہ تھے جنہوں میٹرک میں اے ون گریڈ لانے والے فرسٹ ایئر میں فیل طلبہ و طالبات کی کاپیوں کی دوبارہ جانچ کی اور دیے گئے نمبرز کو درست قرار دیا ہے۔ سپلا کے رہنماؤں نے یہ بھی کہا کہ کسی بھی بورڈ کی کارکردگی جانچنے کے لیے ان کے طالب علموں کو مختلف یونیورسٹیز کی ایپٹیوڈ ٹیسٹ کی پاس پرسنٹیج سے کرنا زیادہ مناسب ہے۔ این ای ڈی انجینئرنگ یونیورسٹی کے نتائج اس بات کے گواہ ہیں کہ سندھ کے تمام تعلیمی بورڈز میں کراچی بورڈ کے طالب علموں کی پاس پرسنٹیج کیا تھی اور باقی سندھ کے تعلیمی بورڈز کی صورتحال کس قدر بدترین تھی۔ لیکن حکومت سندھ نے یہ واضح پیغام دیا ہے کہ کراچی بورڈ کو بھی کراچی میٹرک بورڈ سمیت سندھ کے دیگر بورڈز کے طرح غیر معیاری نتائج دینا ہوں گے!! جو کہ کسی طرح ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ کراچی انٹر بورڈ کا ایک معیار ہے جس کو دیگر صوبوں کے تعلیمی بورڈز کے ساتھ موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ سپلا کے رہنماؤں نے مزید کہا کہ مسئلے کا حل 15 یا 20 نمبر دینا نہیں ہے بلکہ مسئلے کا حل برائی کی جڑ کے خاتمے کا ہے۔ کراچی کے تعلیمی اداروں میں طلبہ کی حاضری ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اس کے لیے سی کیپ کی پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے، سندھ کے آٹھوں تعلیمی بورڈز کو اڈھاک ازم کے بجائے گزشتہ کئی سالوں سے خالی چیئرمین بورڈ، ناظم امتحانات، سیکرٹری بورڈز کے عہدوں پر فوراً ماہرین تعلیم کو میرٹ پر تعینات کیا جائے۔ بالخصوص کراچی میٹرک بورڈ سے تھوک کے حساب سے اے ون اور اے گریڈ آنے کی آزاد جانچ کروائی جائے اور یہ جانچ موجودہ کمیٹی جیسی کمیٹی سے ہرگز نہ کروائی جائے۔