سندھ حکومت کے ماتحت انٹربورڈ کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش ناکام ہوگئی

نتائج کی جانچ کے لیے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی نے ناقص تعلیمی نظام پر سوالات اٹھادئیے

اساتذہ کی عدم دلچسپی, طلباء کی غیرحاضری,اور محکمہ کالجز کی غیرذمہ داری نتائج خراب ہونے کا سبب بنی

اسٹیرنگ کمیٹی اور بورڈ کے سابق چئیرمین کے غلط فیصلے نے نتائج کو متاثر کیا

کراچی(رپورٹ:کامران شیخ)

سندھ حکومت کے ماتحت تعلیمی بورڈز کی ساکھ خراب کرنے کی کوشش ناکام ہوگئی, انٹربورڈ کراچی کے نتائج کی جانچ کے لیے بنائی گئی کمیٹی نے تحقیقات مکمل کرلی, ذرائع کے مطابق حیرت انگیز انکشافات سامنے آگئے, بورڈ کے نتائج کے خلاف احتجاج کرنے والے طلبہ و طالبات غلط نکلے, ذرائع کے مطابق طلبہ کے ساتھ کوئی ناانصافی نہیں کی گئی انکی کارکردگی کے مطابق مارکنگ کی گئی ہے, رواں سال گیارہویں جماعت کے امتحانی نتائج کے بعد متعدد طلباء و طالبات , والدین اور سیاسی جماعتوں نے انٹرمیڈیٹ بورڈ کےنتائج پر عدم اعتماد اور احتجاج کیا تھا احتجاج کے بعد انٹربورڈ کے سربراہ پروفیسر سید شرف علی شاہ نے معاملے کی جانچ کےلیے فوری طور پر متعلقہ ہیڈ ایگزامینرز,ماہر اساتذہ پر مبنی 11 رکنی انکوائری کمیٹی تشکیل دی تھی, ذرائع کے مطابق متعلقہ مضامین کے ہیڈایگزامینرز نے مختلف طریقوں سے اسسمنٹ کے معیار کو جانچا تو انکشاف ہوا کہ احتجاج کرنے والے طلباء و طالبات غلط نکلے, ذرائع کے مطابق انٹرمیڈیٹ بورڈ کا ایگزامینر متعلقہ مضمون میں ماسڑز کی ڈگری رکھتا اور کم از کم 5 سالہ تدریسی تجربہ رکھتا ہے جبکہ بورڈ میں کاپیاں چیک کرنے کا طریقہ کار انتہائی شفاف اور معیاری ہے, میٹرک کلاس میں نمایاں نمبرز حاصل کرکے اے ون اور اے گریڈ والے طلبہ و طالبات کی کاپیوں کو خاص طور پر چیک کیا گیا تو انکشاف ہوا کہ ایسے طلبہ بھی گیارہویں جماعت کے امتحان میں اپنی غلطی کے باعث ناکام ہوئے, رواں سال کیپ پالیسی کے تحت ہونے والے داخلوں میں تین بار میرٹ کم کیا گیا جس کے باعث میٹرک میں 40 فیصد لینے والے بچے بھی گیارہویں جماعت میں سائینس کے مضامین میں داخلے کے اہل ہوگئے جس سے نتائج میں فیل ہونے والے طلباء کی تعداد میں اضافہ ہوا جبکہ رزلٹ کا تناسب بتدریج گرا , سال 2017 میں سندھ حکومت نے سرکاری اسکول اور کالجوں کی انرولمنٹ اور امتحانی فیس معاف کی جس کے باعث انٹر کے کامرس اور آرٹس پرائیویٹ میں داخلہ لینے والے طلباء کی تعداد بہت کم رھ گئی اور ان تمام طلبہ نے بھی سائینس میں داخلہ لے لیا ,واضح رہے کہ کیپ پالیسی کے علاوہ بھی محکمہ کالجز ایجوکیشن کی جانب سے ایسے طلباء و طالبات جس کے نمبرز انتہائی کم ہوتے اور وہ بمشکل پاس ہوتے ہیں انکے لیے متعدد سرکاری کالجوں میں اوپن میرٹ پر بغیر آن لائن سسٹم کے داخلہ دے دیا جاتا ہے جس کے اثرات گیارہویں جماعت کے نتائج پر پڑتے ہیں۔ دوسری جانب شہر کے سرکاری کالجوں میں سائینس پڑھانے والے اساتذہ کا فقدان ہے بیشتر کالجوں میں مکمل کلاسز ہی نہیں ہوتیں , واضح رہے کہ محکمہ تعلیم کے کالجز ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں اساتذہ کی ڈیوٹی, بچوں کی حاضری کو چیک کرنے کا کوئی موثر نظام ہی موجود نہیں ہے, جبکہ سائینس جنرل(کمپیوٹر سائینس) کی فیکلٹی میں داخلہ لینے والے طلبہ و طالبات کی تعداد میں گذشتہ چند سالوں میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے لیکن سائینس مضامین کے اساتذہ نا ہونے اور بغیر حکمت عملی طے کیے سائینس گروپ میں داخلے دئیے جانےکے اثرات نتائج پر پڑے ہیں , سائنس جنرل کی فیکلٹی کو 72 کالجوں تک تو بڑھادیا گیا لیکن متعدد کالجوں میں کمپیوٹر لیب ہی فعال نہیں ہے جبکہ اساتذہ کا بھی فقدان ہےیاد رہے کہ 20 فیصد یا اس سے کم نتائج کے اجراء کے بعد اساتذہ یا کالج انتظامیہ کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کی جاتی,
کوویڈ کے بعد ہونے والے اسٹیرنگ کمیٹی کے اجلاس میں کئی مرتبہ پیپر کا پیٹرن تبدیل کیا گیا جس کی وجہ سے طلبہ تذبذب کا شکار رہے کبھی ایم سی کیوز اور کبھی تفصیلی اور مختصر سوالات کے تناسب میں ردو بدل کیا جاتا رہا, کتابوں کی تبدیلی کے بعد سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے بھی درسی کتابیں وقت پر نہیں مل سکیں جوکہ طلباء میں بے چینی اور رزلٹ خراب ہونے کاسبب بنی

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*