![](https://i0.wp.com/qaumiakhbar.com/wp-content/uploads/2025/01/image-134.png?resize=800%2C450&ssl=1)
پاکستان کی قومی اسمبلی نے جمعرات کی شام متنازع پیکا ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری دے دی ہے جس میں یہ تجویز پیش کی گئی ہے کہ جو شخص آن لائن ’فیک نیوز‘ پھیلانے میں ملوث پایا گیا اسے تین سال قید یا 20 لاکھ تک جرمانے یا دونوں (قید اور جرمانہ) سزائیں دی جا سکیں گی۔
یاد رہے کہ 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں قومی اسمبلی کی متعلقہ قائمہ کمیٹی اور اس کے بعد پارلیمان کے ایوانِ زیریں سے پاس کیے جانے والے اِس حکومتی بِل پر ناصرف صحافتی تنظیمیں اور سیاسی جماعتوں کے اراکین بلکہ ڈیجیٹل رائٹس پر کام کرنے والی تنظیموں کے نمائندے بھی اپنے سخت تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔
جمعرات کی شام جب قومی اسمبلی میں یہ بل پیش ہوا تو اپوزیشن جماعتوں نے احتجاج کیا جبکہ پریس گیلری میں موجود صحافیوں نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ اس ہنگامہ آرائی کے دوران وفاقی وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ صحافیوں کے پاس گئے اور دعویٰ کیا کہ ’یہ بِل پروفیشنل صحافیوں کے خلاف نہیں بلکہ فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف ہے۔‘
حزب مخالف کی جماعتوں اور پاکستان میں صحافیوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے اس بِل کی منظوری کی سخت مذمت کی ہے جبکہ متعدد صحافتی تنظیموں نے اس ترمیمی بِل کے خلاف احتجاج کا اعلان بھی کیا ہے۔ دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے کہ اس قانون سازی کا واحد مقصد جھوٹی خبروں کا قلع قمع کرنا ہے نہ کہ آزادی اظہار رائے پر کوئی قدغن۔
صحافتی تنظیموں، سیاسی رہنماؤں اور ڈیجیٹل رائٹس تنظیموں کے اس بِل پر تحفظات جاننے سے قبل یہ دیکھ لیتے ہیں کہ اس متنازع بِل میں ہے کیا؟
متنازع بِل میں کیا کہا گیا ہے؟
![فیک نیوز](https://i0.wp.com/ichef.bbci.co.uk/ace/ws/640/cpsprodpb/6869/live/bca66630-da08-11ef-a188-59f9c08bd7b0.jpg.webp?w=1240&ssl=1)
جمعرات کو قومی اسمبلی سے منظور ہونے والے اس بِل کو ’دی پریوینشن آف الیکٹرنک کرائمز (ترمیمی) بل 2025‘ کا نام دیا گیا ہے جس میں فیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر کے ایک نئی تحقیقاتی ایجنسی تشکیل دیے جانے کی تجویز پیش کی گئی ہے۔
’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ قائم کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کی رجسٹریشن یا رجسٹریشن کی منسوخی اور معیارات کے تعین کی مجاز ہو گی اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم کی سہولت کاری کے ساتھ ساتھ صارفین کے تحفظ اور حقوق کو بھی یقینی بنائے گی۔
بل میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پیکا ایکٹ کی خلاف ورزی پر یہ اتھارٹی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف تادیبی کارروائی کے علاوہ متعلقہ اداروں کو سوشل میڈیا سے غیر قانونی مواد ہٹانے کی ہدایت جاری کرنے کی مجاز ہو گی۔
اس بِل کے ذریعے پیکا ایکٹ میں ایک نئی شق، سیکشن 26 (اے) کو شامل کیا گیا ہے جو آن لائن فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف سزا سے متعلق ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جو کوئی جان بوجھ کر (فیک نیوز) پھیلاتا ہے جو عوام اور معاشرے میں ڈر، گھبراہٹ یا خرابی کا باعث بنے اس شخص کو تین سال تک قید یا 20 لاکھ روپے تک جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جائیں گی۔
سوشل میڈیا پر غیر قانونی سرگرمیوں سے متاثرہ فرد 24 گھنٹے میں ’سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی‘ کو درخواست دینے کا پابند ہو گا۔ اس اتھارٹی میں کل نو ممبران ہوں گے جبکہ سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے اور چیئرمین پیمرا بر بنائے عہدہ اس اتھارٹی کا حصہ ہوں گے۔
اس مجوزہ اتھارٹی سے متعلق مزید بتایا گیا ہے کہ اس کے چیئرمین اور پانچ اراکین کی تعیناتی پانچ سال کی مدت کے لیے کی جائے گی اور اتھارٹی کے چیئرمین سوشل میڈیا پر کسی بھی غیر قانونی مواد کو فوری بلاک کرنے کی ہدایت جاری کرنے کے مجاز ہوں گے۔
اس بِل کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو اتھارٹی سے رجسٹر کروانا لازمی قرار دیا گیا ہے جبکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو عارضی یا مستقل طور پر بھی بند کیا جا سکے گا۔
یہ اتھارٹی ’نظریہ پاکستان کے برخلاف اور شہریوں کو قانون توڑنے پر آمادہ کرنے والے مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی۔‘
اس ترمیمی ایکٹ کے مطابق اتھارٹی پاکستان کی مسلح افواج، پارلیمان یا صوبائی اسمبلیوں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہو گی جبکہ پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران سپیکر قومی اسمبلی یا چیئرمین سینیٹ کی جانب سے حذف کیے گئے مواد کو سوشل میڈیا پر نہیں اپلوڈ کیا جا سکے گا۔ ترمیمی بل کے مطابق پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات بھی سوشل میڈیا پر اپلوڈ نہیں کیے جا سکیں گے۔