ڈائریکٹر جنرل SBCA عبدالرشید سونگی کی ریٹائرمنٹ نزدیک آتے ہی حکومت میں ” کون بنے گا ارب پتی کی صدائیں
سامنے آنیوالوں میں اتھارٹی کے 2 سینئر افسران اور 3 سابق ڈائریکٹر جنرل ایس بی سی اے سمیت حکومت سندھ کے 2 بیورو کریٹس کے نام شامل
سائیں سرکار کی سابق روایات کو دیکھتے ہوئے کسی غیر متوقع آٹھویں امیدوار کوبھی ڈی جی ایس بی سی اے تعینات کیا جاسکتا ہے، ذرائع کا دعوئی
خالد حیدر شاہ کی تعیناتی کیلئے متعدد کامبالا دباؤ ڈال رہے ہیں تا کہ انہیں ڈی جی ایس بی سی اے تعینات کروا کر ان سے من پسند کام لیے جاسکیں
کراچی (رپورٹ/شاہدشیخ) ڈائریکٹرجنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی عبدالرشید سولنگی کی ریٹائرمنٹ نزدیک آتے ہی حکومت سندھ میں ”کون بنے گا ارب پتی“کی صدائیں گونجنے لگیں جبکہ اتھارٹی کا نیا ڈی جی بننے کے7امیدواروں کے نام بھی منظرعام پر آگئے ہیں جن میں دواتھارٹی کے سینئرافسران اور تین سابق ڈائریکٹرجنرل ایس بی سی اے سمیت دوحکومت سند ھ کے بیوروکریٹس کے نام شامل ہیں تاہم سائیں سرکار کی روایات کودیکھتے ہوئے کسی غیرمتوقع آٹھویں امیدوارکوبھی ڈی جی ایس بی سی اے تعینات کیاجاسکتاہے اتھارٹی کے سینئر افسران میں فرحان قیصر اور علی مہدی کاظمی شامل ہیں گریڈ19کے ان دونوں افسران کو ڈی جی کے عہدے پرتعینات کرنے سے قبل گریڈ20میں ترقی دے کرایڈیشنل ڈائریکٹرجنرل کے عہدوں پر تعینات کرناہوگا اسی طرح سابق ڈائریکٹرجنرل میں سے محمداسحاق کھوڑوسب سے زیادہ مضبوط امیدوار تصور کئے جارہے ہیں دیگر سابق ڈائریکٹرجنرل میں یاسین شر بلوچ اور محمد سلیم کھوڑو کے نام شامل ہیں جبکہ حکومت سندھ کے بیوروکریٹس میں سہیل قریشی اور خالد حیدر شاہ کے نام لئے جارہے ہیں خالد حیدرشاہ کے بارے میں بتایاجارہاہے کہ وہ خود ڈی جی ایس بی سی اے تعینات نہیں ہوناچاہتے بلکہ انہیں متعدد حکام بالا ڈی جی تعینات کرنے کے لئے دباﺅ ڈال رہے ہیں تاکہ انہیں ڈی جی تعینات کرواکر ان سے من پسند کام لیے جاسکیں۔لیکن ذرائع کا کہناہے کہ وہ ایک مستند افسرہیں اور ایسا ہرگز نہیں کریں گے باخبرذرائع کا کہناہے کہ عبدالرشید سولنگی کی مدت ملازمت میں چھ ماہ کی توسیع دینے کیلئے حکومت سندھ کے بڑوں نے کوئی راستہ تلاش کرلیاہے جبکہ دیگرذرائع کا کہناہے کہ زیرالتواءنقشہ جات وغیرہ کی منظوری دینے کیلئے عبدالرشید سولنگی کو28فروری 2025ءتک ملازمت میں توسیع دینے کے بارے میں غورکیاجارہاہے اتھارٹی افسران اورملازمین کا کہناہے کہ سندھی کی مثال ہے کہ ”گدھا وہی رہے گا صرف نام تبدیل ہوجائے گا“ڈی جی کی تبدیلی سے نہ تو اتھارٹی معاملات اورروز مرہ امور میں کوئی تبدیلی متوقع ہے اورنہ ہی کسی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے کیونکہ آج تک جتنے بھی ایس بی سی اے کے سربراہ تعینات کئے گئے ہیں ان میں ہر نئے تعینات ہونے والے ڈی جی نے پرانے ڈی جی کی بدعنوانیوں کے ریکارڈ توڑنے کے علاوہ اورکچھ نہیں کیا کسی نے شہر کے انفرااسٹرکچر کی غیرقانونی تعمیرات سے ہونے والی تباہی اوراتھارٹی افسران وملازمین کی بہتری کیلئے کچھ نہیں کیا سوائے اربوں روپے کی بدعنوانیاں اوررشوت ستانی کی تاریخ رقم کرنے کے اس لیے اتھارٹی کے باہر سے کسی بھی بیوروکریٹ کو ڈی جی کے عہدے پرلاکر بٹھادیاجائے تواس سے خیر اور بہتری کی امید کرنا حماقت ہے یہی وجہ ہے کہ اتھارٹی ملازمین اتھارٹی ہی کے کسی سینئر افسر کو بطور ڈی جی بنتا دیکھنا چاہتے ہیں کیونکہ اتھارٹی کا افسر برسوں کے تجربے کی وجہ سے اتھارٹی کے امور بہترانداز میں چلا سکتاہے حکومت سندھ اتھارٹی کے باہر سے افسران کولاکر کئی مرتبہ تجربہ کرکے دیکھ چکی ہے لیکن آج تک وہ اپنے اس بھونڈے تجربوں سے سبق نہیں سیکھ سکی اورسونے پرسوہاگہ باہر کے افسران میں سے زیادہ ترنان ٹیکنیکل ہوتے ہیں اور جب تک وہ اتھارٹی کے معاملات کوسمجھنے کے قابل ہوتے ہیں انہیں ہٹاکرشاخ پرنیا الو لاکربٹھادیاجاتاہے جوکہ دانستہ طورپرملک کے اہم ترین ٹیکنیکل ادارے کوتباہ کرنے کے مترادف ہے اس لیے عوام الناس اور اتھارٹی کے ہزاروں ملازمین کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اتھارٹی کے کسی سینئرافسرکویہ اہم ذمہ داری سونپنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بات ہرخاص وعام کو معلوم ہے کہ ڈی جی ایس بی سی اے کا عہدہ سونے کی چڑیا ہے اوراسے کروڑوں روپے ادا کرکے ہی حاصل کیا۔جاسکتاہے اسی لیے کروڑوں روپے کی بولی لگتی ہے اورجوبیرونی افسر کروڑوں روپے دے کر کروڑوں روپے ماہانہ دینے کی شرط پر ڈی جی تعینات ہوگا وہ بھلا کیونکرشہر اورادارے کے بارے میں کوئی فکر کرے گا وہ توعبدالرشید سولنگی کی طرح ایک سال کی قلیل مدت میں اربوں روپے بٹورنے کی منصوبہ بندی کرے گا۔ذرائع کا کہناہے کہ عبدالرشید سولنگی کی جانب سے اربوں روپے کے ہیر پھیر کے باعث اس کے”Bosses“نے اس کی ”کلاس“لی ہے جبکہ ڈائریکٹرڈیمالیشن عبدل سجادخان نے متعلقہ حکام کے استفسار پر بتایا کہ ڈیمالیشن کارروائیوں سے ہونی والی کروڑوں روپے کی آمدنی میں سے 75فیصد رقم عبدالرشید سولنگی وصول کیا کرتے تھے اورانہیں صرف25فیصد رقم ہی ملا کرتی تھی ۔ذرائع کے مطابق عبدالرشید سولنگی نے منی لانڈرنگ میں مشکلات کے باعث ایک میمن پارٹی کے ذریعے ساﺅتھ افریقہ سے ہیرے خریدکرپاکستان میں ان ہیروں کی کروڑوں روپے کی رقم ادا کی ہے کیونکہ ڈالرزباہر منتقل کرنے میں دشواری کا سامنا تھا متعلقہ تحقیقاتی اداروں کوان الزامات کی مکمل چھان بیان کرنے کی اشدضرورت ہے۔