سال 2024ء پاکستان کرکٹ کیلئے کیسا رہا؟

پاکستان کرکٹ نے سال 2024 میں کیا کھویا اور کیا پایا؟ تفصیلی جائزہ


سال 2024 آغاز سے اختتام تک پاکستان کرکٹ کیلئے مایوس کُن ترین سال رہا، رواں برس کا آغاز قومی کرکٹ ٹیم نے 3 میچز کی ٹیسٹ سیریز میں آسٹریلیا کے ہاتھوں وائٹ واش ہونے سے کیا۔

پاکستان نے تقریباً گزشتہ 3 دہائیوں سے آسٹریلیا میں کوئی ٹیسٹ میچ نہیں جیتا، سال 1995 سے 2024 تک آسٹریلین سرزمین پر کھیلی جانے والی تمام سیریز میں پاکستان کو آسٹریلیا کے ہاتھوں شکست ہوئی، رواں برس اس ٹیسٹ سیریز میں قومی ٹیم کو آسٹریلیا میں لگاتار 17ویں ٹیسٹ میچ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

بعدازاں 17 جنوری سے 21 جنوری تک پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ٹی ٹوئنٹی سیریز میں بھی قومی ٹیم کو بدترین ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور 5 ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز نیوزی لینڈ نے 1-4 سے جیت لی۔

ان دونوں سیریز کے بعد سابق اور سینئر کھلاڑیوں کیجانب سے بھی مایوس کن بیانات سامنے آنے لگے۔

قومی کرکٹ ٹیم کے ڈائریکٹر محمد حفیظ نے کہا کہ دورہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کھلاڑیوں کی توجہ نہیں تھی، سابق کپتان شاہد آفریدی نے کہا کہ دورہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں جیت کے مواقع ضائع کیے گئے جبکہ قومی ٹیم کے اسٹار بلے باز بابر اعظم کا کہنا تھا کہ وہ آج جس مقام پر کھڑے ہیں وہ اس سے مطمئن نہیں ہیں۔

فروری:

اس دوران یہ خبریں گردش کرنے لگیں کہ اُس وقت کے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کو پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کا چیئرمین مقرر کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔

بعدازاں 6 فروری کو محسن نقوی 3 برس کے لیے باضابطہ طور پر چئرمین پی سی بی منتخب کرلیے گئے جنہیں فروری میں عام انتخابات کے بعد وزیر داخلہ کا عہدہ بھی سونپ دیا گیا اور وہ تاحال اِن دونوں عہدوں پر بیک وقت براجمان ہیں۔

اس کے بعد 17 فروری سے 16 مارچ تک قومی ٹیم کے کھلاڑی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) 9 میں مصروف ہوگئے جس میں شاداب خان کی کپتانی میں اسلام آباد یونائیٹڈ فاتح ٹھہری۔

مارچ:

اس دوران عماد وسیم اور اُنکے بعد محمد عامر نے بھی ریٹائرمنٹ واپس لینے کا اعلان کردیا، جبکہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے کھلاڑیوں کی فٹنس بہتر بنانے کے لیے ایبٹ آباد کاکول کی ملٹری اکیڈمی میں فوج کی زیر نگرانی تربیتی کیمپ لگانے کا فیصلہ کیا۔

26 مارچ کو پی سی بی نے پاک فوج کے زیر نگرانی کاکول ایبٹ آباد میں ہونے والے فٹنس کیمپ کے لیے عماد وسیم اور محمد عامر سمیت 29 کھلاڑیوں کی فہرست کا اعلان کیا۔

مارچ میں ہی یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ نومبر 2023 میں بابر اعظم کے استعفے کے بعد ٹی20 ٹیم کپتان مقرر کیے جانے والے شاہین شاہ آفریدی کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ سے قبل عہدے سے ہٹا کر ایک بار پھر قومی ٹیم کی کپتانی تبدیل کیے جانے کا امکان ہے۔

نیوزی لینڈ کیخلاف 18 اپریل سے 27 اپریل تک 5 ٹی ٹوئنٹی میچز پر مشتمل ہوم سیریز کے آغاز سے قبل 27 مارچ کو پاکستانی کرکٹرز کا فٹنس کیمپ آرمی اسکول آف فزیکل ٹریننگ کاکول میں شروع ہوا جوکہ 8 اپریل تک جاری رہا۔

اس ٹریننگ کیمپ میں کُل 29 کھلاڑی شریک تھے جس میں کھلاڑیوں کو جسمانی ٹریننگ سمیت سخت ترین مشقیں کرائی جائیں گی جن کا ملک بھر میں خوب مذاق بھی بنا اور تنقید بھی ہوئی کیونکہ اس ٹریننگ کے کوئی سیر حاصل نتائج برآمد نہ ہوسکے اور ٹیم متاثرکن کارکردگی دکھانے میں بدستور ناکام رہی۔

مارچ کے اختتام میں ہی یہ خبریں سامنے آئیں کہ پی سی بی نے سابق کپتان بابر اعظم کو ایک مرتبہ پھر ٹی ٹوئنٹی ٹیم کا کپتان بننے کی پیشکش کردی جبکہ بابر اعظم نے تینوں فارمیٹ کی کپتانی دینے کا مطالبہ کردیا، بالآخر 31 مارچ کو پی سی بی نے باضابطہ طور پر بابر اعظم کو دوبارہ ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کا کپتان مقرر کردیا۔

اس فیصلے کی وضاحت کیلئے پی سی بی کیجناب سے اعلامیہ جاری کیا گیا جس میں کہا گیا کہ شاہین آفریدی کو ہٹانے کا فیصلہ کھلاڑیوں کے طویل کریئر اور خاص کر فاسٹ بولرز کو انجریز سے بچانے کے ضمن میں کیا گیا ہے۔

پاکستان کرکٹ بورڈ نے شاہین شاہ آفریدی کی جانب سے کپتانی چھوڑنے اور بابر اعظم کو کپتان قبول کرنے کا بیان جاری کیا تھا لیکن شاہین آفریدی خود سے منسوب اِس بیان سے لاعلم نکلے تاہم چیئرمین پی سی بی محسن نقوی سے ملاقات کے دوران شاہین آفریدی نے واضح کیا کہ ان کا دل بالکل صاف ہے اور وہ بات کو بڑھانا نہیں چاہتے۔

عجلت میں کیے گئے اس فیصلے پر سابق کرکٹر شاہد آفریدی، مصباح الحق کے علاوہ سابق چیئرمین پی سی بی ذکا اشرف نے بھی تنقید کی۔

اپریل:

اپریل کے آغاز سے قبل ہی چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کیجانب سے متواتر یہ بیانات سامنے آنا شروع ہوچکے تھے کہ پاکستان کی میزبانی میں ‘چیمپئنز ٹرافی 2025’ کا مکمل انعقاد پاکستان میں ہی ہوگا اور بھارت سمیت تمام ٹیمیں چیمپئنز ٹرافی کھیلنے پاکستان آئیں گی۔

8 اپریل کو کاکول فٹنس کیمپ کا اختتام ہوا تو آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی جانب سے پاکستان کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں افطار ڈنر دیا گیا۔

9 اپریل کو نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز کے لیے 17 رکنی پاکستانی اسکواڈ کا اعلان کیا گیا جس میں ریٹائرمنٹ واپس لینے والے محمد عامر اور عماد وسیم کی بھی ٹیم میں واپسی ہوگئی۔

18 اپریل سے 27 اپریل تک پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان 5 ٹی ٹوئنٹی میچز پر مشتمل ہوم سیریز 2-2 سے برابر رہی جبکہ ایک میچ بارش کی نذر ہوگیا۔

سیریز کے بعد قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے ایک بیان میں کہا تھا کہ بطور کپتان نیوزی لینڈ کے خلاف سیریز کے نتیجے سے مطمئن نہیں ہوں اور ہمیں سیریز کو اچھے مارجن سے جیتنا چاہیے تھا جبکہ نیوزی لینڈ کے کوچ گیری سٹیڈ نے کہا تھا کہ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ ان کی ناتجربہ کار ٹیم نے بہترین مقابلہ کرکے پاکستان کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی سیریز برابر کردی۔

مئی:

10 مئی کو پاکستان اور آئرلینڈ کے درمیان 3 ٹی ٹوئنٹی میچز کی سیریز کے پہلے ٹی 20 میچ میں آئرلینڈ نے پاکستان کو 5 وکٹوں سے شکست دے کر سیریز میں 0-1 کی برتری حاصل کرلی۔

یہ شکست پاکستان کرکٹ ٹیم کیلئے بڑا دھچکا ثابت ہوئی جس نے بڑے بڑوں کو ہلا کر رکھ دیا، سابق کرکٹرز نے قومی ٹیم کو خوب تنقید کا نشانہ بنایا، اسی دوران چیئرمین پی سی بی محسن نقوی بھی ٹیم سے ملاقات کیلئے ڈبلن پہنچ گئے۔

کپتان بابر اعظم نے سیریز کے پہلے میچ میں شکست کی ذمہ داری فیلڈرز اور باؤلرز پر ڈالی دی جبکہ دوسرے میچ میں فتح حاصل ہوئی تو جیت کا کریڈٹ بلے بازوں کو دے دیا۔

بعدازاں تیسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں بھی پاکستان نے آئرلینڈ کو شکست دے کر سیریز میں 1-2 سے کامیابی حاصل کر لی۔

چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے آئرلینڈ کے خلاف ٹی 20 سیریز جیتنے کے بعد ایک بیان میں پاکستان کو ’دنیا کی بہترین ٹیم‘ قرار دے دیا تھا۔

تاہم ریکارڈ پر نظر ڈالیں تو اُس وقت تک پاکستانی ٹیم سال میں 12 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیل چکی تھی جن میں سے 5 میں فتح جبکہ 7 میں شکست کا سامنا کیا، ان 5 میچز میں سے بھی صرف ایک فتح نیوزی لینڈ کی مضبوط ٹیم کے خلاف حاصل ہوئی تھی جبکہ باقی 4 فتوحات نیوزی لینڈ کی بی ٹیم اور آئرلینڈ کے خلاف حاصل ہوئیں۔

مئی کے اختتام میں پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان 4 ٹی ٹوئنٹی میچز پر مشتمل سیریز کھیلی گئی، سیریز کے 2 میچز بارش کی نذر ہوئے جبکہ بقیہ دونوں میچز میں انگلش ٹیم نے پاکستان کو شکست دیکر سیریز میں 0-2 سے کامیابی حاصل کر لی۔

اس دوران چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کیجانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ قومی ٹیم ایک میچ ہار جائے تو پوسٹ مارٹم شروع ہوجاتا ہے، ٹی20 ورلڈکپ نزدیک ہے، اس دوران ایک ماہ تک پاکستانی ٹیم پر تنقید نہ کریں بلکہ اپنی ٹیم کا ساتھ دیں، جبکہ قومی ٹیم کے کپتان بابر اعظم نے بھی ایک بیان میں کہا کہ اب کھلاڑیوں کو ذمے داری لینی ہوگی کیونکہ ورلڈ کپ سر پر ہے۔

جون:

یکم جون سے امریکا اور ویسٹ انڈیز کی مشترکہ میزبانی میں ‘آئی سی سی ٹی20 ورلڈکپ 2024’ کا باضابطہ آغاز ہوا تھا، تاہم پاکستانی ٹیم پر بدقسمتی کے سائے ورلڈکپ کے آغاز سے پہلے ہی منڈلانا شروع ہوچکے تھے جو لندن میں انگلینڈ سے ٹی20 سیریز ہارنے کے بعد امریکی شہر ڈیلاس پہنچ چکی تھی۔

اس کے بعد پاکستانی کرکٹ ٹیم کے ساتھ جو کچھ ہوا اُس کی تلخ یادیں آج بھی پاکستانی کرکٹ شائقین کو خون کے آنسو رلا دیتی ہیں۔

پاکسانی ٹیم نے اپنا افتتاحی میچ میزبان امریکا کے خلاف 6 جون کو ڈیلاس میں کھیلا جبکہ میگا ایونٹ کا سب سے بڑا میچ، یعنی پاک-بھارت ٹاکرا 9 جون کو نیویارک میں ہوا اور ان دونوں ہی میچز میں شکست پاکستان کا مقدر ٹھہری۔

6 جون کو پہلے ہی میچ میں پاکستان کر اپ سیٹ شکست کا سامنا کرنا پڑا جب نوآموز امریکی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کو سپر اوور میں 5 رنز سے ہرا دیا تھا۔

یوں پاکستان کو ٹی20 ورلڈ کپ میں پہلے ہی میچ کے بعد اگر مگر کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا اور قومی ٹیم کی اگلے مرحلے تک رسائی پر سوالیہ نشان لگ گیا۔

امریکا سے شکست پر ہیڈ کوچ گیری کرسٹن اور کپتان بابر اعظم نے بھی کھلاڑیوں کی خوب کلاس لی تھی، گیری کرسٹن نے بیٹنگ، باؤلنگ اور فیلڈنگ میں ابتر کارکردگی پر قومی ٹیم کو آڑے ہاتھوں لیا جبکہ کپتان بابراعظم نے پلان پر عمل نہ کرنے پر باؤلرز پر برہمی کا اظہار کیا، دوسری جانب ماہرین نے بابر اعظم کی سست بیٹنگ پر بھی سوالات اٹھا دیے۔

نو آموز امریکی ٹیم کے ہاتھوں شکست پر شائقین کرکٹ نے شدید غم وغصے کا اظہار کیا جبکہ بھارت سمیت دنیا بھر میں قومی ٹیم کا خوب مذاق بنا۔

اگلے میچ میں پاک-بھارت ٹاکرے سے کرکٹ شائقین کو ‘بابر اینڈ کمپنی’ سے کوئی خاص امیدیں نہ تھیں اور 9 جون کو توقع کے عین مطابق پاکستانی ٹیم بھارت کا دیا گیا 120 رنز کا ہدف حاصل کرنے میں بھی ناکام رہی اور پوری ٹیم مقررہ اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 113 رنز ہی بنا سکی۔

یوں پاکستان جیتی باز ہار گیا اور یہ شکست پاکستانی کرکٹ شائقین کے زخموں پر نمک ثابت ہوئی، اِس دوران پاکسانی کرکٹ ٹیم کے بڑے بڑے ناموں کو ٹیم سے باہر کرنے اور نئی ٹیم لانے کے مطالبات زور پکڑنے لگے اور چیئرمین پی سی بی محسن نقوی بھی یہ بیان دینے پر مجبور ہوگئے کہ قومی کرکٹ ٹیم کو چھوٹی نہیں بڑی سرجری کی ضرورت ہے۔

یہی وہ وقت تھا جب پاکستان کے ورلڈ کپ اسکواڈ میں اختلافات کی اطلاعات اور ٹیم کے دو گروپوں میں تقسیم ہونے کے انکشافات بھی سامنے آئے، ذرائع نے دعویٰ کیا کہ آدھے کھلاڑی بابر اعظم اور آدھے شاہین آفریدی کے ساتھ ہیں جبکہ کپتان، کوچ اور سلیکٹر وہاب ریاض بھی ایک پیج پر نہیں ہیں۔

اس دوران سوئنگ کے سلطان وسیم اکرم نے ایک بیان میں  کپتان بابر اعظم اور شاہین آفریدی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انکشاف کیا کہ گزشتہ ماہ قومی ٹیم کی کپتانی تبدیل ہونے کے بعد سے وہ دونوں آپس میں زیادہ بات چیت نہیں کررہے، ایسے کھلاڑیوں کو گھر بٹھا دینا چاہیے۔

دوسری جانب امریکا اور بھارت سے شکست کے بعد اب پاکستان کو سپر 8 مرحلے میں رسائی کیلئے اپنے اگلے دونوں میچز جیتنے کے ساتھ ساتھ دیگر ٹیموں کے میچز کے نتائج پر بھی انحصار کرنا تھا۔

11 جون کو پاکستان نے باؤلرز کی عمدہ کارکردگی کی بدولت کینیڈا کو شکست دے کر ٹی20 ورلڈ کپ میں پہلی کامیابی حاصل کر لی۔

14 جون کو آئرلینڈ-امریکا میچ بارش کی نذر ہوا تو پوانٹس ٹیبل کے کھیل نے پاکستان کو چوتھے اور آخری میچ سے قبل ہی ٹی20 ورلڈ کپ سے باہر کردیا اور امریکا نے سپر ایٹ مرحلے کے لیے کوالیفائی کر لیا، یوں پاکستان سپر ایٹ مرحلے میں پہنچنے سے بھی محروم رہ گیا۔

16 جون کو پاکستانی ٹیم نے ٹی20 ورلڈ کپ میں اپنے آخری میچ میں آئرلینڈ کے خلاف بیٹنگ لائن کی ایک مرتبہ پھر ناکامی کے باوجود دلچسپ مقابلے کے بعد 3 وکٹوں سے کامیابی حاصل کر لی اور اسکے ساتھ ہی ٹی20 ورلڈ کپ میں پاکستان کا سفر اختتام پذیر ہوا۔

ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں بدترین کارکردگی پر ہیڈ کوچ گیری کرسٹین کا ایک تشویشناک بیان سامنے آیا کہ ‘یہ ٹیم درحقیقت ٹیم ہے ہی نہیں کیونکہ اس میں اتحاد کی کمی ہے اور کوئی کسی کو سپورٹ نہیں کرتا، کھلاڑیوں میں اختلافات ہیں اور کسی کو ٹیم میں دلچسپی نہیں ہے’۔

جولائی:

جولائی کے آغاز میں قومی کرکٹ ٹیم کی ورلڈکپ میں بدترین کارکردگی پر ہیڈ کوچ گیری کرسٹن نے رپورٹ جمع کروادی تھی جس میں گیری کرسٹن نے کھلاڑیوں کی فٹنس پر سوالات اٹھائے اور کئی کھلاڑیوں کو ڈسپلن کی خلاف ورزی کا مرتکب بھی قرار دیا۔

چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے ایک بیان میں کہا کہ ٹی20 ورلڈکپ میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے کھلاڑیوں کے سینٹرل کنٹریکٹ میں پوسٹ مارٹم کیا جائے گا۔

اسی دوران بھارتی میڈیا کی جانب سے پہلی بار یہ دعویٰ سامنے آیا کہ بھارتی کرکٹ ٹیم ‘چیمپئنز ٹرافی 2025’ کھیلنے کے لیے پاکستان نہیں جائے گی اور ہائبرڈ ماڈل کے تحت چیمپنز ٹرافی کے کچھ میچز دیگر ممالک میں کھیلے جائیں گے حالانکہ ایونٹ میں شرکت کرنے والی دیگر تمام ٹیمیں پہلے ہی پاکستان آمد کی یقین دہانی کروا چکی تھیں۔

بعدازاں بھارتی کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) نے ان خبروں کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ حتمی فیصلہ بھارتی حکومت کے احکامات کے مطابق کیا جائے گا۔

اگست:

کرکٹ ٹیم کی مسلسل ناقص کارکردگی نے وزیراعظم شہباز شریف کو بھی تشویش میں مبتلا کریا، انہوں نے اگست کے آغاز میں قذافی اسٹیڈیم لاہور کی تعمیر نو کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیڈیم سے زیادہ کرکٹ ٹیم کی تشکیل نو کی ضرورت ہے، محسن نقوی کرکٹ ٹیم پر بھرپور توجہ دیں اور صرف میرٹ پر اس کا انتخاب کریں، وزیراعظم بھی میرٹ کیخلاف سفارش کرے تو مسترد کردیں۔

پاکستان اور بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیموں کے درمیان 21 اگست سے 2 ٹیسٹ میچز کی سیریز ہوئی جس کے نتائج نے پاکستانی کرکٹ شائقین کو مایوسی کے گڑھوں میں دھکیل دیا۔

سیریز کے دونوں ٹیسٹ راولپنڈی میں کھیلے گئے تھے، پہلا ٹیسٹ 21 سے 25 اگست تک جبکہ دوسرا ٹیسٹ 30 اگست سے 3 ستمبر تک کھیلا گیا۔

پہلے ٹیسٹ میچ میں بنگلہ دیش نے پاکستان کو 10 وکٹوں سے پہلی بار شکست دے کر تاریخ رقم کردی۔

بنگلہ دیش کے ہاتھوں قومی ٹیم کی اِس بدترین شکست پر ردعمل دیتے ہوئے چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے اعتراف کیا کہ پاکستانی ٹیم کو جیسی کارکردگی دکھانی چاہیے تھی وہ ویسی نہیں دکھاسکے۔

سوشل میڈیا پر کرکٹ شائقین کیجانب سے تنقید اور میمز کا طوفان امڈ آیا جنہوں نے اسے پاکستانی کرکٹ کے لیے بدترین لمحہ قرار دیا۔

اس شکست نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے سپر اسٹارز سمجھے جانے والے کھلاڑیوں کی قلعی کھول دی اور لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے نظر آئے کہ آخر قومی کرکٹ ٹیم کو کیا ہوگیا اور اس تنزلی کا ذمہ دار کون ہے؟

اس دوران چیئرمین پی سی بی محسن نقوی کا ایک اور بیان سامنے آیا کہ ‘میرے پاس کوئی ایسی جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ سب فوری ٹھیک ہوجائے، تاہم جب جاؤں گا تو کرکٹ کے معاملات ٹھیک کرکے جاؤں گا’۔

اسی مہینے آئی سی سی نے ٹیسٹ فارمیٹ کی نئی رینکنگ جاری کی جس میں پاکستان کے مایہ ناز بلے باز بابر اعظم 6 درجے تنزلی کے بعد نویں نمبر پر پہنچ گئے۔

ستمبر:

ابھی پاکستانی کرکٹ شائقین پہلے ٹیسٹ میچ میں بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکست کے غم سے نہ سنبھلے تھے کہ بنگلہ دیش نے دوسرے ٹیسٹ میچ میں بھی پاکستان کو شکست دیکر 2 میچوں کی سیریز میں کلین سوئپ کرکے تاریخ رقم کردی۔

یوں پاکستان کو ہوم سیریز میں دوسری بار کلین سوئپ کا سامنا کرنا پڑا، اس سے قبل انگلینڈ نے 2022 میں پاکستان کو 3 میچوں کی سیریز میں وائٹ واش کیا تھا۔

شکست کے بعد پاکستان ٹیسٹ ٹیم کے کپتان شان مسعود نے ایک بیان میں کہا کہ ہوم سیریز میں شکست پر بہت مایوسی ہوئی، ہمیں ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی مینٹل اور فزیکل فٹنس بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد آئی سی سی نے نئی ٹیسٹ رینکنگ جاری کی جس میں پاکستان 59 سال کی بدترین پوزیشن پر چلاگیا جبکہ سابق کپتان اور آؤٹ آف فارم بلے باز بابر اعظم بھی تقریبا ساڑھے 4 سال بعد ٹاپ 10 آئی سی سی ٹیسٹ پلیئرز کی فہرست سے باہر ہوگئے۔

ٹاپ 10 باؤلرز کی فہرست میں بھی کوئی پاکستانی باؤلر نظر نہیں آیا کیونکہ شاہین شاہ آفریدی تنزلی کے بعد 11ویں نمبر پر چلے گئے تھے۔

اس دوران ایک بار کپتان کی تبدیلی کی خبریں زور پکڑنے لگیں اور محمد رضوان کو تمام فارمیٹس کیلئے قومی ٹیم کا کپتان بنائے جانے کا امکان ظاہر کیا گیا۔

دوسری جانب چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے ایک بار پھر اپنا یہ دعویٰ دہرایا کہ چیمپئنز ٹرافی کیلئے بھارت سمیت تمام ٹیمیں پاکستان آئیں گی حالانکہ بھارتی میڈیا مسلسل یہ دعویٰ کررہا تھا کہ چیمپئنز ٹرافی کیلئے انڈیا کی ٹیم پاکستان نہیں جائے گی جبکہ آئی سی سی نے بھی اپنے ایک بیان میں واضح کیا کہ چیمپئنز ٹرافی 2025 پاکستان سے منتقل کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

ابھی کپتان کی دوبارہ تبدیلی کی خبریں گرم تھیں کہ پی سی بی کے ڈائریکٹر ہائی پرفارمنس اور سابق کرکٹر ندیم خان کیجانب سے ایک بیان سامنے آیا جنہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پچھلے 2 سالوں کے دوران چیئرمین پی سی بی، کوچز اور کپتانوں کی مسلسل تبدیلی سے ٹیم کی کارکردگی متاثر ہوئی لیکن اب کوشش کی جارہی ہے کہ فیصلوں میں استحکام لایا جائے۔

بعدازاں 12 ستمبر سے 23 ستمبر تک قومی ٹیم کے کھلاڑی چیمپیئنز ون ڈے کپ میں مصروف رہے، اس ٹورنامنٹ میں پینتھررز، مارخورز، اسٹالینز، لائنز اور ڈولفنز کی ٹیمیں شامل تھیں جن کے کپتان افتخار، شاداب، محمد حارث، سعود شکیل اور امام الحق تھے۔

یہ ٹورنامنٹ پاکستان کرکٹ بورڈ کے زیرانتظام کروایا گیا تھا اور اس کے لیے سابق پاکستانی کھلاڑیوں کو ٹیموں کا مینٹور مقرر کیا گیا تھا۔

اکتوبر:

ابھی اکتوبر کا آغاز ہی ہوا تھا کہ پاکستانی ٹیم ایک بار پھر کپتان سے محروم ہوگئی جب 2 اکتوبر کو بابر اعظم نے اپنی پرفارمنس پر توجہ دینے کے لیے ون ڈے اور ٹی20 ٹیم کی قیادت سے استعفیٰ دیدیا جو پی سی بی نے اُسی روز منظور بھی کرلیا۔

دراصل یہ وقت تھا جب مستقل خراب فارم کے ساتھ ساتھ ٹیم کی مسلسل ناکامیوں کو دیکھتے ہوئے متعدد سابق کرکٹرز اور دیگر حلقوں کی جانب سے بابر اعظم کو قیادت چھوڑ کر بیٹنگ پر توجہ دینے کا مشورہ دیا جارہا تھا۔

ابھی ون ڈے اور ٹی20 ٹیم کے نئے کپتان کیلئے رضوان سمیت مختلف نام سامنے آنے کا سلسلہ جاری تھا کہ 2 سال قبل پاکستان کو اسی کی سرزمین پر 3 ٹیسٹ میچز کی سیریز میں کلین سوئپ کرنے والی انگلینڈ کرکٹ ٹیم ایک بار پھر 3 ٹیسٹ میچز پر مشتمل سیریز کھیلنے پاکستان آگئی، تاہم مستقل ناقص کارکردگی کے بعد یہ سیریز پاکستانی کرکٹ شائقین کیلئے کسی حد تک تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔

ٹیسٹ کپتان شان مسعود کی قیادت میں پاکستان نے انگلینڈ کے خلاف پہلا ٹیسٹ 7 سے 11 اکتوبر تک اور دوسرا ٹیسٹ میچ 15 سے 19 اکتوبر تک کھیلا جبکہ تیسرا ٹیسٹ 24 سے 28 اکتوبر تک کھیلا گیا۔

11 اکتوبر کو انگلینڈ نے پاکستان کو ملتان میں کھیلے گئے سیریز کے پہلے ٹیسٹ میچ میں اننگز اور 47 رنز سے شکست دے دی اور قومی ٹیم نے ٹیسٹ کرکٹ کا بدترین ریکارڈ اپنے نام کرتے ہوئے پہلی اننگز میں 500 سے زائد رنز بنا کر بھی اننگز کی شکست سے دوچار ہونے والی دنیا کی پہلی ٹیم بن گئی۔

اس موقع پر پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق ہیڈکوچ مکی آرتھر نے قومی کھلاڑیوں کی حد سے زیادہ تشہیر کو شکست کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ٹیم کی کارکردگی کے لیے سلیکشن، ماحول اور انتظامیہ میں تسلسل ضروری ہے۔

اس دوران ایک غیرمعمولی خبر سامنے آئی جب انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ کے لیے قومی اسکواڈ کا اعلان کیا گیا اور سلیکشن کمیٹی نے بابراعظم، شاہین شاہ آفریدی، نسیم شاہ اور سرفراز احمد کو بھی ٹیم سے ڈراپ کردیا۔

یہی وہ وقت تھا جب بابر اعظم کو ٹیم سے ڈراپ کیے جانے کے فیصلے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر تنقیدی پوسٹ کرنے پر پی سی بی نے فخر زمان کو شوکاز نوٹس جاری کردیا تھا اور اسکا خمیازہ وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔

انگلینڈ کے خلاف دوسرے ٹیسٹ میچ سے قبل ایک غیرمعمولی پیش رفت یہ بھی سامنے آئی کہ اس دوسرے ٹیسٹ میچ کے لیے لگاتار 2 بار ایک ہی پچ کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا جبکہ پچ کو ٹرننگ ٹریک بنانے کے لیے وکٹ کے اطراف میں بڑے بڑے پنکھے بھی لگا دیے گئے اور اسے ‘اسپن فرینڈلی’ بنانے کے لیے پچ پر اضافی پانی بھی چھوڑا گیا۔

یہ تدبیریں کام آئیں اور 15 اکتوبر کو دوسرے ٹیسٹ کے پہلے روز بابر اعظم کی جگہ ٹیم میں شامل کیے گئے کامران غلام نے اپنے ڈیبیو میچ میں ہی سنچری جڑ دی۔

16 اکتوبر کو آئی سی سی نے ٹیسٹ فارمیٹ کی نئی رینکنگ جاری کی جس میں بابر اعظم مزید 3 درجے تنزلی کے بعد 15ویں نمبر پر چلے گئے۔

18 اکتوبر کو پاکستان نے اسپنرز نعمان علی اور ساجد خان کی تباہ کن باؤلنگ کی بدولت انگلینڈ کو دوسرے ٹیسٹ میچ میں 152 رنز سے شکست دے کر 3 میچوں کی سیریز 1-1 سے برابر کرنے کے ساتھ ساتھ بالآخر ساڑھے 3 سال بعد ہوم گراؤنڈ پر پہلا ٹیسٹ میچ جیت لیا۔

اس سے قبل پاکستان نے ہوم گراؤنڈ پر اپنا آخری ٹیسٹ میچ فروری 2021 میں جنوبی افریقہ کے خلاف جیتا تھا۔

نعمان علی اور ساجد خان نے خوب داد وصول کی کیونکہ ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں ایسا 52 سال بعد ہوا تھا کہ کسی ٹیم کے 2 کھلاڑیوں نے حریف ٹیم کے تمام 20 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔

بالآخر 26 اکتوبر کو پاکستان نے انگلینڈ کو تیسرے ٹیسٹ میں 9 وکٹوں سے شکست دے کر انگلینڈ کے خلاف 9 سال بعد ٹیسٹ سیریز جیت لی۔

یوں قومی ٹیم کو ساڑھے 3 سال بعد ہوم سیریز میں کامیابی ملی، پاکستان نے آخری ہوم سیریز 2021 میں جنوبی افریقا کے خلاف جیتی تھی۔

اسی روز یہ خبریں سامنے آئیں کہ پی سی بی نے قومی ٹیم کے وکٹ کیپر محمد رضوان کو ون ڈے اور ٹی 20 کا کپتان بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

اگلے ہی روز 17 اکتوبر کو یہ خبریں درست ثابت ہوگئیں جب پی سی بی نے محمد رضوان کو پاکستان کی ون ڈے اور ٹی20 ٹیم کا کپتان مقرر کرنے کا باضابطہ اعلان کردیا جبکہ آل راؤنڈر سلمان علی آغا کو نائب کپتان مقرر کردیا۔

اس دوران پاکستان کرکٹ بورڈ نے مالی سال 25-2024 کے لیے قومی ٹیم کے لیے سینٹرل کنٹریکٹ کا بھی اعلان کردیا اور شاہین شاہ آفریدی ایک درجہ تنزلی کے بعد بی کیٹیگری میں چلے گئے ہیں جبکہ سابق کپتان سرفراز احمد اور فخر زمان سمیت متعدد کھلاڑی اس بار کنٹرکٹ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

دریں اثنا پاکستان کرکٹ بورڈ اور غیر ملکی کوچز جیسن گلیسپی، گیری کرسٹن کے درمیان اختلافات سامنے آنے لگے، 28 اکتوبر کو گیری کرسٹن نے پی سی بی سے اختلافات کے بعد استعفیٰ دے دیا۔

نومبر:

نومبر کا آغاز ہوتے ہی پاکستان ٹیم آسٹریلیا کے مختصر دورے پر میلبرن پہنچ گئی جہاں اس نے 3 ایک روزہ میچز اور 3 ٹی ٹوئنٹی میچز کھیلے۔

ان میچز کے آغاز سے قبل ہی پاکستان کے لیے جیت کے امکانات بہت کم ظاہر کیے جارہے تھے، کہنے والوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر پاکستان ٹیم ایک میچ بھی جیت جاتی ہے تو یہ ایک بڑا معرکہ ہوگا۔

4 نومبر کو آسٹریلیا نے پاکستان کو 3 میچوں کی سیریز کے پہلے ایک روزہ میچ میں دلچسپ مقابلے کے بعد 2 وکٹوں سے شکست دے دی۔

8 نومبر کو دوسرے ایک روزہ میچ میں پاکستان نے آسٹریلیا کو 9 وکٹوں سے شکست دے کر تین میچوں کی سیریز 1-1 سے برابر کردی، اس میچ کے دوران کپتان محمد رضوان نے 6 کیچ پکڑ کر عالمی ریکارڈ برابر کردیا جبکہ ساتواں کیچ ڈراپ کرنے کی وجہ سے وہ عالمی ریکارڈ اپنے نام نہ کرسکے۔

10 نومبر کو پاکستان نے آسٹریلیا کو تیسرے اور فیصلہ کن میچ میں 8 وکٹوں سے شکست دیدی۔

یوں گرین شرٹس نے کینگروز کے خلاف ہوم گراؤنڈ پر 22 سال بعد ون ڈے سیریز جیت کر نئی تاریخ رقم کردی۔

ابھی پاکستانی کرکٹ شائقین اِس فتح کا جشن ٹھیک سے منا بھی نہیں پائے تھے کہ 14 نومبر کو آسٹریلیا نے 3 ٹی ٹوئنٹی میچز پر مشتمل سیریز کے پہلے میچ میں پاکستان کو 29 رنز سے شکست دے دی۔

16 نومبر کو آسٹریلیا نے دوسرے ٹی20 میچ میں بھی پاکستانی ٹیم کو 13 رنز سے شکست دیکر 3 میچز کی سیریز میں 0-2 کی فیصلہ کُن برتری حاصل کرلی۔

پاکستانی کرکٹ شائقین ابھی اس صدمے سے سنبھلے نہ تھے کہ 18 نومبر کو آسٹریلیا نے تیسرے اور آخری ٹی20 میچ میں بھی پاکستان کو شکست دے کر سیریز میں وائٹ واش مکمل کردیا۔

اس شرمناک شکست نے آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے سیریز میں فتح کا مزہ بھی کرکرا کردیا اور پاکستانی کرکٹ شائقین مایوسی کے دلدل میں دھنستے چلے گئے۔

نومبر کے اختتام میں پاکستان اور زمبابوے کے درمیان 3 میچز پر مشتمل ون ڈے سیریز کھیلی گئی۔

24 نومبر کو پہلے ون ڈے میچ میں زمبابوے نے پاکستان کو ڈک ورتھ لوئس سسٹم (ڈی ایل ایس) کے تحت 80 رنز سے شکست دے دی۔

26 نومبر کو پاکستان نے دوسرے ون ڈے میچ میں صائم ایوب کی شاندار سنچری کی مدد سے زمبابوے کو 10 وکٹوں سے شکست دے کر 3 میچوں کی سیریز 1-1 سے برابر کردی۔

28 نومبر کو پاکستان نے تیسرے اور فیصلہ کن ایک روزہ میچ میں زمبابوے کو 99 رنز سے شکست دے کر 3 میچوں کی سیریز 1-2 سے اپنے نام کرلی۔

اسی دوران بھارتی میڈیا کیجانب سے یہ دعویٰ سامنے آیا کہ بھارتی کرکٹ بورڈ نے چیمپئنز ٹرافی 2025 کے لیے اپنی ٹیم کو پاکستان بھیجنے سے انکار کردیا ہے اور آئی سی سی کو بھی اس فیصلے سے آگاہ کردیا۔

اِن خبروں پر ردعمل دیتے ہوئے چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے کہا کہ انڈین کرکٹ بورڈ نے چیمئنز ٹرافی 2025 کے لیے اپنی ٹیم بھیجنے سے انکار کیا تو ہم سے بھی اچھے کی امید نہ رکھے۔

بھارت کے ہائبرڈ ماڈل پر اصرار اور پاکستان کے مسلسل انکار کیوجہ سے دونوں ممالک کے کرکٹ بورڈز کے درمیان ڈیڈلاک پیدا ہوگیا اور چیمپئنز ٹرافی کے متوقع آغاز میں 100 روز سے بھی کم رہ جانے کے باوجود شیڈول کا اعلان نہ ہوسکا۔

دسمبر:

دسمبر کا آغاز ہوتے ہی پاکستان اور زمبابوے کے درمیان 3 میچز پر مشتمل ٹی ٹوئنٹی سیریز کا بھی آغاز ہوگیا، یکم دسمبر کو پاکستان نے پہلے میچ میں زمبابوے کو 57 رنز سے شکست دے دی۔

3 دسمبر کو سیریز کے دوسرے میچ میں پاکستان نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے زمبابوے کو 10 وکٹوں سے شکست دیکر سیریز میں 0-2 کی فیصلہ کن برتری حاصل کرلی۔

5 دسمبر کو زمبابوے نے 3 میچوں کی سیریز کے تیسرے اور آخری ٹی 20 میچ میں دلچسپ مقابلے کے بعد پاکستان کو 2 وکٹوں سے شکست دے دی۔

11 دسمبر کو پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان ٹی ٹوئنٹی سیریز کا آغاز ہوا اور پہلے ٹی20 میچ میں جنوبی افریقہ نے پاکستان کو 11 رنز سے شکست دے دی۔

13 دسمبر کو جنوبی افریقہ نے پاکستان کو دوسرے ٹی ٹوئنٹی میچ میں 7 وکٹوں سے شکست دے کر 3 میچوں کی سیریز میں 0-2 کی فیصلہ کُن برتری حاصل کرلی۔

14 دسمبر کو پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان تیسرا اور آخری ٹی 20 میچ بارش کی نذر ہوگیا اور 3 میچوں کی سیریز پروٹیز نے 0-2 سے اپنے نام کرلی۔

یوں پاکستانی کرکٹ ٹیم نے سال 2024 میں سب سے زیادہ ٹی20 انٹرنیشنل میچز ہارنے والی ٹیم کا بدترین ریکارڈ اپنے نام کرلیا۔

واضح رہے کہ پاکستان اور جنوبی افریقہ کے درمیان ون ڈے سیریز کے 3 میچز 17 دسمبر، 19 دسمبر اور 22 دسمبر کو کھیلے جائیں گے۔

علاوہ ازیں دونوں ممالک کے درمیان 2 میچز پر مشتمل ٹیسٹ سیریز کا پہلا میچ 26 دسمبر سے 30 دسمبر جبکہ دوسرا ٹیسٹ میچ 3 جنوری سے 7 جنوری تک کھیلا جائے گا۔

چیمپئنز ٹرافی ڈیڈلاک

دوسری جانب چیمپئنز ٹرافی پر ڈیڈلاک دسمبر میں بھی مسلسل برقرار رہا، اس دوران یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ پاکستان نے نئے ہائبرڈ فیوژن ماڈل رضامندی ظاہر کردی ہے تاہم بھارت نے اس پر بھی اعتراضات اٹھا دیے اور پی سی بی کے پیش کردہ فیوژن ہائبرڈ ماڈل کو ماننے سے انکار کردیا۔

اس دوران چیمپئنز ٹرافی پر ڈیڈلاک کے معاملے پر آئی سی سی کے کئی اجلاس منعقد ہوئے جو مسلسل بےنتیجہ ثابت ہوتے رہے۔

بعدازاں یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے آگے گھٹنے ٹیک دیے ہیں اور چیمپئنز ٹرافی 2025 کے انعقاد کے حوالے سے پاکستان کے فیوژن ہائبرڈ ماڈل پر رضامندی ظاہر کر دی، تاہم اس حوالے سے تاحال آئی سی سی کی جانب سے کوئی باضابطہ اعلان سامنے نہیں آیا ہے۔

اسے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

*

*
*