گریڈ 18 کے 5 افسران کوگریڈ 19،گریڈ17 کے 75 ٹیکنیکل افسران کو گریڈ 18اورگریڈ 16 کے 93 ٹیکنیکل افسران کو گریڈ 17 میں ترقیاں دی گئی ہیں
2016 سے غیرقانونی سسٹم چلانے کے باوجود گریڈ 19 میں ترقی دے دی گئی،عبدالسجاد خان کیخلاف ایف آئی اے اوراینٹی کرپشن میں بھی تحقیقات جاری ہیں
گریڈ 18 سے گریڈ 19 میں ترقی پانے سے محروم رہنے والے چار افسران 1 عامر خان، 2 زرغام حیدر،3ظہیراحمد اور 4 علی اسد کو بھی مشروط طورپر ترقی ملنی چاہیئے تھی
کراچی(رپورٹ/شاہد شیخ)سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے187 افسران کو ترقی دینے والی متنازعہ ڈیپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی (DPC)عدالت میں چیلنج کرنے کا فیصلہ کیاگیاہے اتھارٹی افسران کواگلے گریڈز میں ترقی دینے کیلئے جون 2024ءمیں قائم کی جانے والی ڈی پی سی کا لوکل گورنمنٹ اینڈ ہاﺅسنگ ٹاﺅن پلاننگ ڈیپارٹمنٹ حکومت سندھ نے نوٹیفکیشن بلاآخرچھ ماہ بعد جاری کردیا جس کے تحت گریڈ18کے5افسران کوگریڈ19،گریڈ17کے75ٹیکنیکل افسران کو گریڈ18اورگریڈ16 کے93ٹیکنیکل افسران کو گریڈ17میں ترقیاں دی گئی ہیں جبکہ ایڈمن ،لیگل، فنانس اینڈ اکاﺅنٹس ڈیمالیشن سیکشنزکے افسران کے علاوہ ریٹائرڈ اورفوت ہونے واےل16،17اور18گریڈکے ٹیکنیکل اورنان ٹیکنیکل 19افسران کو بھی اگلے گریڈز میں ترقیاں دی گئیں ہیں۔ اتھارٹی افسران کی جانب سے سب سے پہلے اعتراض گریڈ18سے 19 میں ترقی پانے والے افسران کونوٹیفکیشن پراٹھایاگیاہے جس میں فہیم مرتضی، عبدالسجاد خان، عبدالسمیع جملانی، اشفاق حسین کھوکھر اورجلیس صدیقی کے نام شامل ہیںجن میں سے عبدالسجاد خان کیخلاف حکومت سندھ کی تحقیقات جاری ہونے کے باوجود مشروط ترقی دینا سرفہرست ہے جن کو چیف منسٹر انسپکشن ٹیم (CMIT)نے ڈسٹرکٹ سینٹرل میں پٹہ سسٹم کے تحت غیرقانونی تعمیرات کروانے پر لوکل گورنمنٹ سندھ کو ہدایت کی تھی کہ انہیں نوکری سے برخاست کردیں لیکن اس ہدایت پر عمل درآمد کرنے کی بجائے انہیں2016 سے غیرقانونی سسٹم چلانے کے باوجود گریڈ19 میں ترقی دے دی گئی جبکہ عبدالسجاد خان کیخلاف ایف آئی اے اوراینٹی کرپشن میں بھی تحقیقات جاری ہیں لیکن ان کا بھی ابھی تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا عبدالسجاد خان کے پاس پاکستان اورکینیڈا کی دوہری شہریت بھی ہے اور وہ ایس بی سی اے کے ساتھ این ای ڈی کے بھی ملازم بتائے جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی مشروط ترقی پر افسران کو شدید اعتراض ہے جبکہ گریڈ18 سے گریڈ19 میں ترقی کے مستحق 4سینئر افسران کے نام ڈی پی سی نکال دیئے گئے جن میں عامرخان کیخلاف غیرقانونی تعمیرات کی سرپرستی کا الزام عائد کرکے گریڈ18 سے گریڈ17 میں تنزلی کی گئی اوران کا نام اس وجہ سے DPC میں شامل نہیں کیاگیا ،زرغام حیدر کوعدالت سے کلیئرنس ملنے کے باوجود DPCکے تحت گریڈ19میں ترقی نہیں دی گئی حالانکہ ان پرکوئی خاص الزام بھی نہیں تھا اور اگرتھا بھی تو عدالت کی جانب سے کلیئرنس ملنے کے بعدان کوترقی دی جانے چاہئے تھی ،اسی طرح ظہیر احمد کیخلاف درج مقدمے کے باعث انہیں اگلے گریڈ میں ترقی نہیں دی گئی ۔جبکہ پلاٹ مبرGK-2,7/2غلام حسین قاسم کوارٹر کھارادر کراچی پرواقع عمارت پراضافی منزل تعمیر کرنے کے الزام میں درج کی جانے والی ایف آئی آر نمبر41/24 میں ظہیر احمد کا نام درج نہیں ہے جبکہ ان کا نام بعدازاں مبینہ طورپر عدالتی چالان میں شامل کروایاگیا جس کے لئے قطعی تحقیقات نہیں کی گئیں ظہیراحمد کا کہناہے کہ انہوںنے اپنی تعیناتی کے دوران 2019ءمیںمذکورہ پلاٹ پر تعمیر ہونے والے اضافی غیرقانونی فلور کو انہدامی کارروائی کرکے توڑا تھا جسے ان سے پہلے کسی دوسرے افسر نے نہیں توڑا تھا پھر ان کا تبادلہ کسی دوسری جگہ کردیاگیا اورمذکورہ غیرقانونی اضافی منزل کوملی بھگت سے دوبارہ تعمیر کروادیاگیا جبکہ اس کی ایف آئی آر 2024 میں کاٹی گئی گریڈ18 کے چوتھے ٹیکنیکل افسر علی اسد بھی گریڈ19میں ترقی نہ پاسکے ۔ذرائع کاکہناہے کہ ان کیخلاف کسی گمنام شہری نے لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ حکومت سندھ کو درخواست دی ہے جس میں الزام عائد کیاگیاہے کہ علی اسد نے نوکری کے دوران بیچلر آف انجینئرنگ (BE)کی ڈگری حاصل کی تھی جس کی اتھارٹی سے این او سی حاصل نہیں کی گئی تھی کیونکہ مذکورہ ڈگری مارننگ شفٹ میں حاصل کی گئی تھی اس لیے یا توانہیں اتھارٹی سے چھٹیاں لینی چاہئے تھیں یا صرف نوکری کرنی چاہئے تھی تعلیم کاریگولرحصول اور سرکاری نوکری کا ایک ساتھ کرنا قانون کی خلاف ورزی ہے تاہم ذرائع کا کہناہے کہ گریڈ18سے گریڈ19میں ترقی کیلئے گریڈ18میں کم ازکم 10سال کی سروس درکار ہوتی ہے لیکن علی اسد کو 2016کی ڈی پی سی میں گریڈ18 میں ترقی دی گئی تھی اس لیے ابھی ان کی گریڈ18میں10 سالہ سروس مکمل نہیں ہوئی تھی اس لیے انہیں گریڈ19میں ترقی نہیں دی گئی اتھارٹی افسران کاکہناہے کہ عبدالسجاد خان سمیت کئی افسران کو تحقیقات جاری رہنے کے باوجود اگلے گریڈز میں ترقیاں دی گئیں ہیں اسی طرح گریڈ18سے گریڈ19میں ترقی پانے سے محروم رہنے والے چار افسران 1 عامر خان،2زرغام حیدر،3ظہیراحمد اور4 علی اسد کو بھی مشروط طورپر اگلے گریڈز میں ترقی دے دینی چاہئے تھی مذکورہ متنازعہ ڈی پی سی پرسب سے بڑا اعتراض یہ کیاگیاہے کہ 2010 سے 2015تک سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں غیرقانونی طورپربھرتی کئے جانے والے187 افسران وملازمین کیخلاف پہلے قومی احتساب بیورو اورپھراینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ میں کی جانے والی تحقیقات کے باوجود اگران تمام افسران وملازمین کو اگلے گریڈز میں ترقی دی جاسکی ہے توپھر ترقی سے محروم رہنے والے سینئر افسران کے ساتھ کیوںزیادتی کی گئی جبکہ2010سے2015 تک سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی ہیڈ کوارٹر کراچی سمیت تمام ریجنز میں غیرقانونی طورپربھرتی ہونے والے افسران وملازمین کو نہ صرف اتھارٹی میں خلاف قانون بھرتی کیاگیا بلکہ ان کوسینئر افسران سے بھی سینئر کرکے سینئر افسران کی ترقیوں کا راستہ ہی بند کردیاگیاگیاباخبرذرائع کا کہناہے کہ اتھارٹی افسران کو ترقی دینے کے عوض حکام بالا کے نام پر کروڑوں روپے رشوت بھی وصول کی گئی ہے اور DPCچھ ماہ تک تاخیر کا شکار ہونے کی وجہ سے مزید لاکھوں روپے رشوت فی کس طلب کرنابتایاجاتاہے۔