![](https://i0.wp.com/qaumiakhbar.com/wp-content/uploads/2024/12/image-131.png?resize=800%2C450&ssl=1)
صدر بشارالاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسرائیل شام میں ’عسکری اہداف‘ پر اب تک سینکڑوں حملے کر چکا ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی فوج نے اسرائیل اور شام کے درمیان واقع گولان کی پہاڑیوں میں اقوام متحدہ کے زیرِ نگرانی قائم غیر فوجی زون یا بفرزون پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ شام میں جاری اس کی فوجی کارروائیوں کا مقصد اسرائیلی شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانا ہے تاہم کچھ ماہرین کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل اپنے ایک دیرینہ دشمن (شام) کو کمزور کرنے کے لیے موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
منگل کے روز اسرائیل کی جانب سے شام کے بحری بیڑے پر بھی ایک بڑے حملے کی تصدیق کی گئی ہے۔ اسرائیلی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اُس کے جنگی طیاروں نے پیر کی رات البیضا اور اللاذقيہ کی بندرگاہوں کو نشانہ بنایا جہاں شامی بحریہ کے 15 بحری جہاز لنگر انداز تھے۔
تو ایسے میں اہم سوال یہ ہے کہ اسرائیل شام پر مسلسل حملے کیوں کر رہا ہے؟
اسرائیل شام پر حملے کیوں کر رہا ہے؟
![تصویر](https://i0.wp.com/ichef.bbci.co.uk/ace/ws/640/cpsprodpb/cdf8/live/cf975a20-b789-11ef-a0f2-fd81ae5962f4.jpg.webp?w=1240&ssl=1)
اسرائیلی فوج نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ اُس کے جنگی طیاروں نے گذشتہ چند دنوں کے دوران شام کے مختلف علاقوں میں متعدد فوجی اور عسکریت پسندوں کے اہداف پر 350 سے زیادہ فضائی حملے کیے ہیں۔
اس سے قبل شام کی صورتحال پر نظر رکھنے والی تنظیم ’سیرین آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘ (ایس او ایچ آر) کی جانب سے کہا گیا تھا کے اتوار کے روز باغیوں کی جانب سے دمشق کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد سے اسرائیلی فوج نے شام پر 310 فضائی حملے کیے ہیں۔
ایس او ایچ آر کے مطابق ان حملوں کا ہدف حلب اور دمشق میں موجود شامی فوج کی تنصیبات تھیں۔ جن علاقوں میں حملے کیے گئے ہیں اُن میں حلب، حماہ، دمشق، لتاکیا، طرطوس اور دیگر علاقے شامل ہیں۔
رامی عبدالرحمٰن ایس او ایچ آر کے بانی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اسرائیلی حملوں کا مقصد شام کی فوج کی لڑنے کی صلاحیت کو ختم کرنا ہے۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ شام کی سرحدی اور فضائی حدود کی مسلسل پامالی کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب اسرائیل کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ اس کے حملوں کا مقصد اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ شام میں موجود کیمیائی ہتھیار شدت پسندوں کے ہاتھ نہ لگیں۔
اسرائیل کے کیمیائی ہتھیاروں کو لے کر خدشات
![A suspected chemical attack on Douma, near Damascus by pro-Assad forces in 2018](https://i0.wp.com/ichef.bbci.co.uk/ace/ws/640/cpsprodpb/f95d/live/cd0058d0-b70b-11ef-a2ca-e99d0c9a24e3.jpg.webp?w=1240&ssl=1)
بی بی سی اردو کی خبروں اور فیچرز کو اپنے فون پر حاصل کریں اور سب سے پہلے جانیں پاکستان اور دنیا بھر سے ان کہانیوں کے بارے میں جو آپ کے لیے معنی رکھتی ہیں
سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
مواد پر جائیں
اسرائیل کو اس بات کی فکر لاحق ہے کہ سابق شامی صدر بشارالاسد کے مبینہ کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ اب کس کے پاس جائے گا۔
اس بارے میں کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں کہ شام میں کہاں اور کتنے کیمیائی ہتھیار موجود ہیں۔ تاہم یہ بات یقینی ہے کہ سابق صدر نے کیمیائی ہتھیار جمع کیے تھے۔
سوموار کے روز اقوامِ متحدہ کے ہتھیاروں کے ادارے نے شامی حکام کو متنبہ کیا تھا کہ اگر اُن کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں تو انھیں محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔
شام میں اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے سابق انسپکٹر اور سویڈن کی امیا یونیورسٹی میں پروفیسر ایکک سیلسٹورم کا کہنا ہے کہ اسرائیل فضائی حملوں کے ذریعے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت کو نشانہ بنا رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اسرائیل شام کے کیمیائی ہتھیاروں کے اثاثے ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سیلسٹورم کے مطابق یہ اثاثے ’لوگ، تنصیبات یا ہتھِیار، کچھ بھی ہو سکتے ہیں۔‘
بشارالاسد کی فوج نے سنہ 2013 میں دمشق کے مضافاتی علاقے غوطہ میں ایک حملے میں سیرین گیس استعمال کی تھی اور اس حملے میں ایک ہزار سے زائد افراد کے مارے جانے کی اطلاعات تھیں۔
شام کی فوج پر الزام ہے کہ انھوں نے ملک کے دیگر علاقوں میں بھی سیرین گیس اور کلورین گیس سے بنے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تھے۔