![](https://i0.wp.com/qaumiakhbar.com/wp-content/uploads/2024/12/img_2706-1.jpg?resize=731%2C419&ssl=1)
تحریر :نوال فاطمہ
یہ20 نومبر1971ئکا تاریخی دن تھا جب پوری قوم عید الاضحی کا تہوار دینی جوش و جذبے سے منا رہی تھی ….لیکن عید کے اس پر مسرت موقع کی دو پہر کراچی کے ساحل پر سفید اور آسمانی رنگ کی وردیوں میں ملبوس پاک بحریہ کے افسر اور جوان عید کے پیغام کے ساتھ ساتھ اپنے عزیزوں کو الوداع کہہ رہے تھے۔ان کی چھٹیاں منسوخ ہوچکی تھیںاور آج وہ پاک بحریہ کی آبدوز ” پی این ایس ہنگور “ کے عملے میں شامل تھے جو جنگی صورت ِ حال کے پیش ِ نظر دفاعِ وطن کے لیے روانہ ہو رہی تھی ان کے عزیزوں کے لبوں پر بس ایک دعا تھی …. ” اے اللہ انھیںسلامت رکھ اور پاکستان کی حفاظت فرما“
22نومبر کو بھارت نے مشرقی پاکستان میںدر اندازی شروع کردی اور وہاں مشرقی پاکستان کی سرکاری تنصیبات کو نشانہ بنانا شروع کیا تو پاک بحریہ نے اس کا جواب دیا اور ان مشکل حالات میںسمندری آپریشن جاری رکھا ….3دسمبر 1971ءکو بھارت نے مغربی پاکستان میں بھی دراندازی کی تو پاکستان کی تمام عسکری قوتین میدان میں آگئیں …. پاک بحریہ کواپنی شجاعتوں کے جوہر دکھلانے کا وقت آگیا تھا اسی لیے پاک بحریہ نے فوراََ اپنی آبدوزوں کو متحرک کردیا …. جنگِ ستمبر کا معرکہ¿ دوارکا کی وجہ سے تعداد اور جنگی سامان کم ہونے کے باوجود پاک بحریہ کے ہر افسر اور سیلر کے حوصلے بلند تھے اسی لیے سب منتظر تھے کہ بس حکم ملے اور ہم سمندروں پر دشمن کا سارا غرور خاک میں تہہ آب کردیں۔ پی این ایس ہنگور کے عملے کے لیے چھ دن اسی انتظار میں گذرے کہ کب پاک بحریہ کے ان مجاہدوں کو پی این ایس ہنگور کے ذریعے دشمن کے تعاقب کا حکم ملتا ہے۔ آب دوزپی این ایس ہنگورجو فرانس سے لی گئی ڈیفنی نامی آبدوز تھی ا±س وقت اس کا شمار بہترین آبدوزوں میں ہوتا تھا۔ ڈیفنی قدیم یونانی ادب میں حسن و جمال کی دیوی تھی جو پانیوں پر رہا کرتی تھی …. مگر یہ سیاہ رنگ کا وہ حسن و جمال تھا جو پاکستان کے ساحلوں اور سمندروں کے حسن کا ضامن تھا …. بحری تجارتی قافلوں کی روانی کی نگہبان یہی ڈیفنی تھی جو1970ء میں پاک بحریہ کا حصہ بنی۔ 26نومبر کو پی این ایس ہنگور بمبئی کی سمت روانہ ہوگئی جس کامقصد بھارتی بحری بیڑے کا سراغ لگانا تھا جو کراچی پر حملے کے لیے تیار ی کر رہا تھا۔پانی کے اندر پاک بحریہ کے یہ آبدوز مجاہد عالمِ اسلام کی ایک نئی تاریک رقم کرنے نکلے تھے۔ ان کے سینوں میں دورِ عثمان غنی سے لیکر عہدِ خلافتِ عثمانیہ کے روشن کارنامے تھے …. ان کے پاس جنگِ ستمبر کی داستانِ شجاعت تھی جسے ابھی چھ سال ہی گذرے تھے …. دشمن اور اس کا چہرہ وہی تھا بس تاریخ اور سن بدل چکے تھے۔بھارتی ناو¿ سینا کسی خونخوار بھیڑیے کی طرح پاکستان پر حملے کے لیے مچل رہی تھی مگر اسے پتہ تک نہ تھا کہ پاکستان کے آبی مجاہد اسی کے سمندروں کی تہہ میں ہی اس کی گھات لگائے اسے غرق کرنے کے لیے تیار ہیں۔آبدوز پی این ایس ہنگور کو سمندروں کی تہہ میںسفر کرتے اور دشمن پر نگاہ رکھتے ایک ہفتے سے زیادہ گزر چکا تھالیکن بھارتی بحری بیڑاا±سے تاحال نظر نہیں آیا تھا۔2دسمبر کو وہ لمحہ آہی گیا جب پاک بحریہ کی اس آبدوز نے بھارتی جنگی جہاز آئی این ایس میسور کو دیکھ لیا۔آئی این ایس میسور ان کے اوپر سے گزر رہا تھا اور یہ وقت یقینی موت کا وقت تھا کہ ذرا سی جنبش بھی آبدوز تباہ کرسکتی تھی۔ ادھر پاک بحریہ کے جوانوں کا حوصلہ اتنا بلند تھا کہ وہ میسور کو ہی غرق کرنے کے لیے پر عزم تھے مگر ابھی حکم یہی تھا کہ پاک بحریہ جنگ میں پہل نہیں کرے گی۔ ایک فوجی جذبے اور فوجی نظم و ضبط کے تحت پاک بحریہ نے بھی خاموشی اختیار کرلی کیونکہ ابھی بھارتی بحری بیڑے کی نقل حرکت پر نگاہ رکھنے کااصل مشن باقی تھا۔ اگلے دن ہی پی این ایس ہنگور کو سگنل موصول ہوا کہ بھارت نے مغربی پاکستان پر بھی حملہ کردیا ہے اس لیے اب بھارتی بحری جہازوں کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ یہ حکم ملتے ہی پاک بحریہ کے تمام جوانوں اور افسروں کا جذبہ بلند ہوگیا۔ دوسری جانب پاک بحریہ کی انٹیلی جنس کے پاس یہ خبر پہنچ چکی تھی کہ بھارتی بحری جہاز کراچی پر حملے کی تیاری کرچکے ہیں اسی لیے انھیں بروقت روکنا اور ان کا نشانہ بنانا ضروری ہے جس کے لیے پی این ایس ہنگور اب بمبئی کے پانیوں میں اپنا شکار ڈھونڈ نے لگی۔آخر کار9دسمبر کو وہ تاریخی دن آہی گیا جس کا عملے کو بے صبری سے انتظار تھا …. آبدوز سے تقریباََ آٹھ ناٹیکل میل کے فاصلے پر دو بھارتی بحری جہاز آئی این ایس ککری اور کرپان ا±سے نظر آئے جنھیں پی این ایس ہنگور ہی کو تلاش کرنے بھیجا گیا تھا ….پی این ایس ہنگور نے فوراََ اپنا رخ ان کی طرف کیا۔ رفتہ رفتہ پی این ایس ہنگور ان کے قریب آنے لگی اور اور موت ان بھارتی جہازوں کے سر پر ناچنے لگی ….!!شام سات بجے کے قریب آبدوز ہنگور نے گہرے پانی میں غوطہ لگایا جس کے بعدتمام مواصلاتی رابطے منقطع کردیے گئے۔ ٹھیک پونے آٹھ بجے پی این ایس آبدوز ہنگور ان دونوں جہازوں کے قریب پہنچ گئی۔ٹیلی اسکوپ پرٹارگٹ صاف نظر آرہا تھا۔ حملہ اتنی احتیاط سے کرنا تھا کہ نشانہ خطا ہونا گویا خود موت کو دعوت دینا تھا اسی لیے غلطی کی کوئی گنجائش نہیں تھی …. پاک بحریہ کا پہلا نشانہ آئی این ایس کرپان تھا حکم ملتے ہی تار پیڈو فائرکیا گیالیکن بس ذرا سے فاصلے نے نشانہ خطا ہوگیا۔ ادھر آبدوز کے اندر موجود میزائل ٹارگٹ سسٹم جسے سونار سسٹم کہا جاتا ہے اس نے اطلاع دی کہ ”ٹارگٹ ویٹ“ ….پی این ایس ہنگور کی کمان نے وقت ضائع کیے بغیر حملہ جاری رکھا۔ بھارتی بحریہ کے دونوں جہاز متحرک ہوچکے تھے اور انھیں خبر ہوچکی تھی کہ جس شکار کو وہ ڈھونڈنے نکلے ہیں اب وہ اس کے سامنے ہے اسی لیے آئی این ایس ککری نے جنوب سے چکر کاٹ کر فوراََ ہنگور کو نشانہ بنانے کی راہ لے لی۔پی این ایس ہنگور سے دوبارہ تارپیڈو داغا گیاجسے آئی این ایس ککری نے اپنی سمت آتے دیکھ لیا تھامگر اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ آنِ واحد میں سمندر میں زور دار دھماکے سنائی دینے لگے اور سطحِ آب پر آگ کے بڑے بڑے شعلے سمندروں اٹھ کر سے آسمان سے باتیں کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک سو ساٹھ افراد پر مشتمل بھارتی بحریہ کا غرورسمندر برد ہوگیا۔ آئی این ایس کرپان نے راہِ فرار اختیار کرنا چاہی تو اگلا تارپیڈو اسی کے پیچھے آیا جسے اس نے ڈیپتھ فائر چارج کے ذریعے بچالیا لیکن اس تارپیڈو نے کرپان کو بھی نقصان پہنچایا ….ککری کے تباہ ہوتے ہی آبدوز کا پورا عملہ زیرِ سمندر ہی تکبیر کے فلک شگاف نعرے لگاکر فتح کا اعلان کرنے لگا۔ اب ا±س کے پیشِ نظر دشمن کے دوبارہ ممکنہ حملے کا انتظار بھی تھا لیکن یہ بھارت کی ناو¿ سینا تھی چپ سادھ کر بیٹھ گئی اور یوں تاریخ نے9 دسمبر کی شب ایک بحری تاریخ میں ایک نیا باب لکھا جس میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد آبدوز کے ہاتھوں بحری جہاز کی غرقابی درج تھی ….!! بھارت نے بدمست ہاتھی کی طرح اپنے ہی سمندر میں آبدوز شکن ہتھیاروں کا جال بچھا دیا اور ہوائی جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے آپریش فالکن شروع کیا جو ناکام رہا اور پاک بحریہ اس مشکل ترین دور میں بھی فاتح بن کر ابھری۔پاک بحریہ کے یہ بحری مجاہد13دسمبر1971 کو کامیاب و کامران کراچی پہنچ گئے جہاں سب نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ اس شاندار فتح کے موقع پر تین افسروں کو ستارہ¿ جرا¿ت سے نوازا گیا جبکہ چھ سیلرز کے سینوں پر تمغہ¿ جرات سجائے گئے۔ آج بھی پاک بحریہ سر کریک سے لیکر جیوانی تک پاکستان کے ساحلوں اور سمندروں کی حفاظت کے لیے موجود ہے …. ترقیاتی کام ہوں یا عوام میں شعور کی آبیاری‘ کوسٹل اور کریکس ایریا میں پاک بحریہ ہی تعمیر و ترقی کی ضامن ہے ، اور آج کا دن ہمیں ا±س جذبے کا احساس دلاتا ہے جب پاک بحریہ نے 53سال قبل یہ معرکہ انجام دے کر بتادیا تھا :
”کردیا ہے زیرِ آب ‘ ہند کا سارا غرور ….آئے ہمارے سامنے ‘ ہو جس کے ذہن میں فتور
چمک رہا ہے زیرِ آب اپنے عزم کا شعور ….سلامِ عقیدت ہو تمھیں پاک بحر کی اے ہنگور